aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"لیلی کے خطوط اور مجنوں کی ڈائری" قاضی عبد الغفار کا شاہکار ناول ہے، جس میں خطوط کی تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔ ناول میں ایک ایسی طوائف کی زندگی کو پیش کیا گیا ہے جو مردوں کے بنائے ہوئے سماج سے بیزار ہے۔ اپنے خطوط میں وہ اس سماج پر گہرے طنز کا اظہار کرتی ہے۔ دراصل "لیلیٰ کے خطوط" اور "مجنوں کی ڈائری" دو تصانیف ہیں۔ پہلی کتاب مکتوب نگاری کی تکنیک میں ہے اور دوسری روزنامچے کی تکنیک میں۔ لیکن دونوں کا مواد و موضوع ایک ہی ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک افسانہ ہے، جس کے دو حصے ہیں، یعنی ایک ہی ماجرا پر مشتمل ایک ناول دو جلدوں میں لکھا گیا ہے۔ ایک جلد میں لیلیٰ کے خیالات ہیں اور دوسری میں مجنوں کی کیفیات۔ یہ خیالات و کیفیات ایک دوسرے سے وابستہ و پیوستہ ہیں۔ بہرحال دونوں کتابوں میں درج قصے کی جان وہ انشا پردازی ہے جس کا جوہر ہیروئین اور ہیرو دونوں دکھاتے ہیں، گرچہ اس میں ہیروئین کو پلہ بھاری ہے اور اس کا کردار بھی زیادہ زوردار، کہنا چاہیے کہ مجنوں کی ڈائری ، لیلیٰ کے خطوط کی بازگشت ہے۔ بعض ناشرین نے اس دونوں کو ایک ہی جلد میں شائع کیا ہے۔ اور بعض نے االگ الگ۔۔۔ زیر نظر دونوں ایک ہی جلد میں ہیں۔
’’لیلی کے خطوط‘‘ اور ’’مجنوں کی ڈائری‘‘ کے مصنف قاضی عبدالغفار اصلاً صحافی تھے۔ ان کے زورقلم نے کئی اخباروں کو وقار عطا کیا۔ ان کا وطن مرادآباد تھا۔ وہیں ابتدائی تعلیم ہوئی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ آئے۔ ادبی اور سیاسی شعور اسی درسگاہ میں پروان چڑھا۔ عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا۔ پہلے مولانا محمد علی کے مددگار کی حیثیت سے ’’ہمدرد‘‘(دہلی) سے وابستہ ہوئے۔ کچھ دنوں بعد دہلی سے کلکتہ چلے گئے اور وہاں سے روزنامہ ’’جمہور‘‘ جاری کیا۔ پھر حیدرآباد جاکر ’’پیغام‘‘ نکالا۔
صحافت کے علاوہ سوانح اور تاریخ سے بھی انہیں گہرا شغف تھا۔ آثار جمال الدین، حیات اجمل، یادگار ابوالکلام آزاد ان کے قلم سے نکلی ہوئی مشہور سوانح عمریاں ہیں۔ ان کی عمر کے آخری ایام انجمن ترقی اردو (ہند) کی خدمت میں گزرے۔ کافی عرصے تک انجمن کے سکریٹری کی خدمت انجام دی۔ اس دوران وہ انجمن کے ترجمان ’’ہماری زبان‘‘ کے مدیر بھی رہے۔
اپنی ذات زندگی میں بھی اور تصنیفی کاموں میں بھی قاضی صاحب کے یہاں بہت نفاست پائی جاتی تھی۔ لباس، خوراک، رہن سہن ہر معاملے میں وہ بہت خوش سلیقہ تھے۔ اسی طرح تحریر میں بھی نفاست کا ثبوت دیتے ہیں اور بہت سوچ سمجھ کر ایک ایک لفظ کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان کی عبارت بہت ستھری اور پاکیزہ ہوتی ہے۔ قاضی صاحب کی نثر نگاری کی ایک خصوصیت ہے۔ منتخب اشعار کا استعمال ان کے یہاں بہت ملتا ہے۔ اکثر مضامین کی ابتدا وہ کسی شعر سے کرتے ہیں۔ اور بالعموم خاتمہ بھی شعر پر ہی ہوتا ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets