aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اک نئے اسکول کا بانی افسانہ نگار
’’سچی بات یہ ہے کہ کرشن چندر کی نثر پر مجھے رشک آتا ہے۔ وہ بے ایمان، شاعر ہے جو افسانہ نگار کا روپ دھار کے آتا ہے اور بڑی بڑی محفلوں اور مشاعروں میں ہم سب ترقی پسند شاعروں کو شرمندہ کر کے چلا جاتا ہے۔ وہ اپنے ایک ایک جملے اور فقرے پر غزل کے اشعار کی طرح داد لیتا ہے اور میں دل ہی دل میں خوش ہوتا ہوں کہ اچھا ہوا اس ظالم کو مصرع موزوں کرنے کا سلیقہ نہ آیا ورنہ کسی شاعر کو پنپنے نہ دیتا۔‘‘
علی سردار جعفری
کرشن چندر اردو فکشن کی وہ قد اور شخصیت ہیں جن کے فن میں تنوع، رنگارنگی، شادابی، رومانیت، حقیقت، بگغاوت، شوخی اور طنز سبھی کچھ شامل ہے جبکہ رومانی حقیقت پسندی ان کا طرۂ امتیاز ہے۔ کرشن چندر نے اپنے افسانوں اور ناولوں کے ذریعےترقی پسند ادب کی قیادت کی اور اسے عالمی سطح تک پہنچا دیا۔ انھون نے درجنوں ناول اور 500 سے زائد افسانے لکھے۔ ان کی تصانیف کا ترجمہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہو چکا ہے۔ کرشن چندر کے پاس اک شاعر کا دل اور اک مصور کا قلم ہے، ان کے موضوعات ہندوستانی زندگی اور اس کے مسائل کے گرد گھومتے ہیں۔ اردو افسانوں مین ہیئت کے لحاظ سے کرشن چندر نے نت نئے تجربات کئے ہیں انھوں نے افسانہ اور اسکیچ کے امتزاج سے اردو افسانہ نگاری مین اک نئی طرح ڈالی۔ اور اسے اپنے منفرد اسلوب کے ذریعے افسانہ نگاری میں اک نئے اسکول کی داغ بیل ڈالی۔ افسانوں اور ناولوں کے علاوہ انھوں نے خاکے، انشائیے، تبصرے اور رپورتاژ بھی لکھے جن سب پر ان کی مخصوص چھاپ موجود ہے۔
کرشن چندر 23 نومبر 1914 کو راجستھان کے شہر بھرت پور میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد گوری شنکرچوپڑا میڈیکل افسر تھے۔ بعد میں انھوں نے اس وقت کی ریاست پونچھ میں ملازمت کر لی تھی۔ کرشن چندر کا بچپن وہیں گزرا۔ کرشن چندر نے تحصیل مہندر گڑھ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اردو انھوں نے پانچویں جماعت سے پڑھنی شروع کی اور آٹھویں جماعت میں اختیاری مضمون فارسی لے لیا۔ فارسی کے استاد بلاقی رام نندہ ان کی بہت پٹائی کرتے تھے۔ کرشن چندر نے ان پر اک مضمون "مسٹر بلیکی" لکھ کر دیوان سنگھ مفتوں کے اخبار ’’ریاست‘‘ میں بھیج دیا جو شائع بھی ہو گیا۔ اس مضمون کی علاقہ میں بہت شہرت ہوئی اور لوگوں نے اسے مزے لے لے کر پڑھا لیکن والد سے ڈانٹ ملی۔ کرشن چندر نے میٹرک کا امتحان سیکنڈ ڈویزن میں وکٹوریہ ہائی اسکول سے پاس کیا۔ جس کے بعد انھوں نے لاہور کے فارمن کرسچین کالج میں داخلہ لے لیا۔ اسی زمانہ میں ان کی ملاقات بھگت سنگھ کے ساتھیوں سے ہوئی اور وہ انقلابی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے۔ انھیں گرفتار کر کے دو ماہ لاہور کے قلعہ میں نظر بند بھی رکھا گیا۔ ایف اے میں وہ فیل ہو گئے تو شرم کی وجہ سے گھر سے بھاگ کر کلکتہ چلے گئے۔ لیکن جب معلوم ہوا کہ ان کی والدہ ان کے لاپتہ ہو جانے سے بیمار ہو گئی ہیں تو واپس آ گئے۔ اس کے بعد انھوں نے سنجیدگی سے تعلیم جاری رکھی اور انگریزی میں ایم اے اور پھر ایل ایل بی کیا۔ ایل ایل بی انھوں نے والدین کے دباؤ میں کیا تھا اور ان کا کوئی ارادہ وکالت کرنے کا نہیں تھا۔ ان کی دلچسپی ادب میں تھی اور انھوں نے مختلف رسالوں کے لئے لکھنا شروع کر دیا تھا اور ادبی حلقوں میں ان کی شناخت بننے لگی تھی۔ اس زمانے میں ان کی کہانیوں کے کئی مجموعے، "خیال"، "نظارے" اور"نغمے کی موت" شائع ہو چکے تھے۔ جن کو سراہا گیا تھا۔ ان کا پہلا ناول "شکست"1943 میں منظر عام پر آیا۔
کرشن چندر شروع سے ہی ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہو گئے تھے اور 1938 میں کلکتہ میں منعقد کی گئی کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس میں انھوں نے صوبہ پنجاب کے نمائندہ کی حیثیت سے شرکت کی تھی۔ یہیں ان کا تعارف سجّاد ظہیر اور پروفیسر احمد علی وغیرہ سے ہوا۔ اور انھیں انجمن ترقی پسند مصنفین صوبہ پنجاب کا سکریٹری مقرر کر دیا گیا۔ 1939 میں احمد شاہ بخاری (پطرس) نے، جو آل انڈیا ریڈیو کے ڈپٹی ڈائرکٹر تھے، انھیں آل انڈیا ریڈیو لاہور میں پروگرام اسسٹنٹ کی ملازمت دے دی۔ انھوں نے تین سال تک لاہور، دہلی اور لکھنؤ میں بطور پروگرام اسسٹنٹ کام کیا۔ اس وقت دہلی کے ریڈیو اسٹیشن پر سعادت حسن منٹو بھی تھے جنھوں نے ان کو شراب کی لت لگائی۔ اسی زمانہ میں ان کی مان نے ان کی شادی ودیاوتی سے کر دی۔ ان کی بیوی معمولی شکل و صورت کی اور تند خو تھیں جن کے ساتھ وہ خوش نہیں تھے۔ انھوں نے بہرحال ان کے تین بچوں کو جنم دیا۔
کرشن چندر ریڈیو کی ملازمت سے مطمئن نہیں تھے۔ اتفاق سے اسی زمانہ میں پونے کی شالیمار فلم کمپنی کے پروڈیوسر/ڈائرکٹر زیڈ احمد نے ان کا اک افسانہ پڑھا اور انھیں ٹیلیفون کر کےاپنی فلم کمپنی میں مکالمے لکھنے کی دعوت دی۔ کرشن چند نے ریڈیو کی ملازمت چھوڑ دی اور پونے روانہ ہو گئے۔ پونے کا زمانہ کرشن چندر کی زندگی کا یادگار اور رنگین زمانہ تھا۔ یہاں انھوں نے ہر طرح کے عیش کئے۔ وہ خوبصورت ہیرو ہیروئنوں سے ملے اور ان کا قرب حاصل کیا۔ تخلیقی لحاظ سے بھی یہ ان کا اچھا دور تھا جس میں انھوں نے 'ان داتا' اور ’موبی‘ جیسی کہانیاں لکھیں۔ پونے میں انھوں نے کئی عشق کئے۔ ان کی محبوباؤں میں ایک لڑکی ثمینہ تھی جو زیادہ حسین نہیں لیکن بلا کی ذہین اور فقرہ باز تھی۔ کرشن چندر اس پر فریفتہ ہو گئے یہاں تک کہ وہ ان کی کمزوری بن گئی۔ بعد میں اس لڑکی کو انھوں نے اپنی اک فلم میں سائڈ ہیروئن کا رول بھی دیا۔ ان کی دوسری محبت اس دور کی مشہور شاعرہ شاہدہ نکہت سے ہوئی جو اپنے مسحور کن ترنم اور حسن و جمال کے سبب مشاعروں کی جان ہوا کرتی تھی۔ لیکن اس کے چاہنے والے بہت تھے۔ کرشن چندر کو یہ بات پسند نہیں تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ عشق چھہ ماہ میں دم توڑ گیا۔ اس کے بعد وہ مشہور ادیب اور علی گڑھ یونیورسٹی کے پروفیسر رشید احمد صدیقی کی صاحبزادی پر مر مٹے جو شادی شدہ اور ایک بچہ کی ماں تھیں۔ ان سے شادی میں بہت مشکلات حائل تھیں لیکن سلمٰی بھی ان کے عشق میں گرفتار ہو گئیں اور شوہر سے طلاق لے کر کرشن چندر کی شریک حیات بن گئیں سلمٰی کے ساتھ ان کی زندگی بہت خوشگوار گزری۔
کرشن چندر 1946 میں پونے سے بمبئی چلے گئے جہان ان کو بمبئی ٹاکیز میں ڈیرھ ہزار روپے ماہوار پر ملازمت مل گئی۔ اس کمپنی میں ایک سال کام کرنے کے بعد وہ ملازمت ترک کرکے فلموں کے پروڈیوسر اور ڈائرکٹر بن گئے۔ ان کی پہلی فلم "سرائے کے باہر" ان کے ایک ریڈیائی ڈرامے پر مبنی تھی۔ اس میں ان کے بھائی مہندر ناتھ ہیرو تھے۔ فلم بری طرح ناکام ہوئی اس کے بعد انھوں نے فلم راکھ بنائی جو ڈبہ میں ہی بند رہ گئی اور کبھی ریلیز نہیں ہوئی۔ فلموں کی ناکامی کے نتیجہ مین کرشن چندر عرش سے فرش پر آ گئے۔ سر پر بھاری قرض کا بوجھ تھا جس کی ادائگی کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ انھوں نے اپنی کاریں بیچ دیں، نوکروں کو ہٹا دیا اور بمبئی مین قدم جمائے رکھنے کے لئے نئے سرے سے جد و جہد شروع کی۔ کرشن چندر نے تقریباً دو درجن فلموں کے لئے کہانی، منظر نامے یا مکالمے لکھے ان میں کچھ فلمیں چلیں بھی لیکن بطور فلم رائٹر وہ فلموں میں کوئی بلند مقام نہیں حاصل کر سکے۔
۱۹۶۶ میں کرشن چندر کو سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ سے نوازا گیا جس کے ساتھ پندرہ دن کے لئے سوویت یونین کے دورے کی دعوت بھی تھی۔ کرشن چندر نے سلمٰی صدیقی کے ساتھ روس کا دورہ کیا جہاں ان کا پر جوش خیرمقدم کیا گیا۔ روسی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ترجموں کے ذریعہ ان کی تحریروں سے واقف اور ان کے مداح تھے۔ 1973 میں فلمز ڈویزن نے ان کی قد آور اور عالمگیر شخصیت کے پیش نظر ان کی زندگی پر اک ڈاکیومنٹری فلم بنانے کا فیصلہ کیا اور یہ کام ان کے بھائی مہندر ناتھ کے سپرد کیا گیا۔ فلم کی شوٹنگ بمبئی پونے اور کشمیر میں ہوئی۔ 1969 میں ان کو پدم بھوشن کے خطاب سے نوازا گیا۔ 31 مئی 2017 کو ان کی یاد میں محکمۂ ڈاک و تار نے دس روپے کا ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ ان کو ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ کبھی نہیں ملا۔
کرشن چندر دل کے مریض تھے۔ ان کو 1967، 1969 اور 1976 مین دل کے دورے پڑے تھے لیکن بچ گئے تھے۔ 5 مارچ 1977 کو ان کو ایک بار پھر دل کا دورہ پڑا اور وہ 8 مارچ کو چل بسے۔
قارئین کی تعداد کے اعتبار سے کرشن چندر سے زیادہ کامیاب افسانہ نگار کوئی نہیں۔ ان کے افسانوں میں رومان اور حقیقت کا جو امتزاج ملتا ہے وہ ہندوستانیوں کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہندوستانی فطرتاً تخئیل پرست اور رومانی ہیں لیکن وقت اور حالات کے تقاضوں نے انھیں واقعیت پسند بھی بنا دیا ہے۔ کرشن چندر کے افسانے ان دونوں مطالبات کو پورا کرتے ہیں۔ وہ اپنی انفرادیت کے ساتھ اجتماعیت کو بھی فراموش نہیں کرتے۔ وہ جب اپنی بات کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے پردہ میں سارے معاشرے کی بات کر رہے ہیں۔ ان کی آپ بیتی میں جگ بیتی کا انداز ہے اور یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔ کرشن چندر کو جنت اور جہنم کو یکجا کرنے کا ہنر آتا ہے۔ وہ روشن دماغ اور کشادہ دل ہیں اور انھوں نے اپنے فن کو بھی ان ہی خوبیوں سے مالامال کر دیا ہے۔