aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
دانی کے نام سے پکارے جانے والے ادیب کا اصل نام مسعود دانیال تھا جبکہ طریر تخلص رکھتے تھے۔ دانیال طریر نے نظم اور غزل دونوں صنف میں اپنے آپ کو منوایا ہے۔ اس کے علاوہ تنقید پر بھی ان کی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں ۔ دانیال طریر نے اپنے اسلوب میں روایات سے ہٹ کر نئی علامات کو ایک نفسیاتی کُل کی صورت میں اشعار کی زینت بنا کر لا شعور کی حرکت و حرارت کو متشکل کرنے کے جو تجربے کیے، وہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہیں۔ وہ اسطور کی فضا میں جس انوکھے انداز میں اپنے جذبات واحسات اور تخیل کی جولانیاں دکھاتا ہے، اُسے قدیم روایات اور جدید ترین تصورات کے مابین سنگم کی ایک صورت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ انھوں نے دکھی انسانیت کے ساتھ درد کا ایک ایسا رشتہ استوار کر رکھا تھا جسے وہ علاجِ گردشِ لیل و نہار کے لیے نا گزیر سمجھتے تھے۔ ان کی نظمیں اور غزلیں خاص نظریہ حیات کی ترسیل کرتی ہیں ، ان کے یہاں فن کی کائینات زندگی کی جمالیاتی کائنات سے منسلک ہے ، زیر نظر کتاب دانیال طریر کا شعری مجموعہ ہے ، اس مجموعہ میں دانیال طریر کی غزلوں کے علاوہ نظمیں بھی شامل ہیں ۔اس مجموعہ کے پہلے حصے میں دانیال کی غزلیات اور نظمیں شامل ہیں ،۔ ان کی نظمیں نسبتاً مختصر ہیں ، اور چھوٹی چھوٹی سطروں کی تراش سے ، پھانک پھانک آپس میں پیوست ہوتی ہوئی آگے بڑھتی ہیں۔ان کی شاعری میں استعارے ، امیج اور سمبل کا زاد راہ لے کر اپنے شعری سفر پر روانہ ہوا ہے ، وہ جدید عالمی شاعری کے معیار کے عین مطابق بھی ہے اور اردو نظمیہ شاعری کے تناظر میں ایک جدا گانہ اور منفرد مقام بھی ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free