aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زیر نظر "لکھنؤ کی آخری شمع" یعنی لکھنو کا آخری شاہی مشاعرہ، ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی، مفتی انتظام اللہ شہابی اکبر آبادی اور مولانا عبدالسلام ندوی کی مرتب کردہ کتاب ہے۔ اس میں ایک مثالی مشاعرے کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ جس میں اس وقت کے نامور شعرا شریک ہیں۔ یہ مشاعرہ در حقیقت لکھنؤ کے گذشتہ شاہی معاشرہ و صحبت کا مرقع ہے جس میں عہد شاہی کے تاریخی مشاعرے و علمی صحبت کی تصویر کھینچی گئی ہے، تاکہ لکھنؤ کے گذشتہ مشاعرے کا مرقع آنکھوں کے سامنے پھر جائے، ہندوستان میں مشرقی مشاعرے کا یہ آخری نمونہ تھا اور اس دربار کا ایک ادبی کارنامہ جو ترقی کی معراج کمال کو پہنچ کر بہت جلد فنا ہوگیا۔ 1851 میں لکھنؤ کا یہ آخری مشاعرہ منعقد ہوا جس کے بعد مشرقی عہد کی دربار کی تاریخ مٹ گئی اور جس کے نتیجے میں واجد علی شاہ کو لعنت و ملامت کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کے ہی عہد میں لکھنؤ کی سلطنت کا خاتمہ ہوا اور انگریزوں کا عہد شروع ہوا۔ اس مشاعرہ سے میں گزشتہ لکھنؤ کی ادبی و ثقافتی ماحول کا پتا چلتا ہے، نیز واجد علی شاہ کے دربار کی ہلچل کی اور اس عہد میں اودھ کی ادبی و علمی مجالس کی صورت حال کا پتا چلتا ہے۔
Read the author's other books here.
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free