aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"لغت کبیر"مولوی عبد الحق کی تحریر کردہ لغت ہےجس میں اردو کے تمام مفرد اور مرکب الفاظ درج ہیں۔اعراب بڑی احتیاط اور کاوش سے لگائے گئے ہیں۔ ہر معنی کی شہادت کے لئے اردو ادب کو میزان بنایا گیا ہے۔تمام الفاظ کے ماخذ بتائے گئے ہیں اور الفاظ کی معنی کے اعتبار سے قواعدی حیثیت واضح کی گئی ہے۔ لغت کبیر کی یہ دوسری جلد 1977ء میں انجمن ترقی اردو سے شائع ہوئی۔اس جلد میں مولوی عبدالحق صاحب کا مقدمہ جمیل الدین عالی صاحب کا "حرفے چند"اورڈاکٹر شوکت سبزواری صاحب کا تعارف شامل ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس کی اشاعت میں ہاشمی فرید آبادی صاحب کا"تاریخ تدوین کا خلاصہ تاریخ"شامل ہےمولوی عبدالحق صاحب نے اپنے مقدمہ میں لغت نویسی کا بھر پور جائزہ لیا ہے مستشرقین اور اہل زبان کے لکھے ہوئے لغات کا تحقیقی ذکر کیا ہے۔مولوی عبدالحق نےلغت کبیر کی تالیف کے سلسلے میں لکھاہےاس کی تالیف اور تکمیل میں پورے سترہ سال لگے اور لاکھوں روپیہ صرف ہوئے۔مطالعہ کرنے والے 1300اشخاص تھے۔انہوں نے پانچ ہزار کتابوں میں سے 3500000 اقتباسات انتخاب کئے۔تنخواہ یاب کارکنوں کے علاوہ 30سب ایڈیٹروں اور ہزاروں مطالعہ کرنے والوں نے بلا معاوضہ کام کیا۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اردو کی ترقی کے لئے اپنی زندگی کو وقف کردیا تھا۔ ان کی زبان کا کوئی لمحہ ایسا نہ تھا جو اردو کی فکر سے خالی ہو۔ یہ ان کی خدمات کا اعتراف ہی ہے کہ وہ ہر جگہ بابائے اردو کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
عبدالحق 1870ء میں ہاپوڑ ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد مزید تعلیم کے لیے محمڈن کالج علی گڑھ بھیجے گئے۔ یہاں ا کی صلاحیتوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ سر سید تک رسائی تھی۔ اس ذات گرامی سے براہ راست فیض اٹھانے کا موقع ملا۔ یہیں مولانا حالیؔ اور محسن الملک سے بھی نیاز حاصل ہوا۔ سرسید کے صاحب زادے جسٹس محمود سے بھی ملاقات تھی۔ سرسید نے تصنیف و تالیف کا کچھ کام عبدالحق کے سپرد بھی کیا اس طرح لکھنے پڑھنے کی پہلی تربیت اسی مرد بزرگ کے ہاتھوں ہوئی۔
تعلیم سے فارغ ہو کر عبدالحق تلاش معاش میں حیدرآباد چلے گئے اور ایک اسکول میں مدرس کی ملازمت قبول کر لی۔ آخر ترقی پاکر مدارس کے انسپکٹر مقرر ہوئے۔ اسی زمانے میں انجمن ترقی اردو کے سکریٹری منتخب ہوئے۔ 1917ء میں عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبۂ ترجمہ سے مختصر عرصے منسلک رہے۔ آخر اورنگ آباد کالج کے پرنسپل ہوگئے۔ اب انہیں انجمن ترقی اردو کو مستحکم کرنے کا موقع ملا۔ اسی کے ساتھ ہی تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رہا۔ آخر میں عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے صدر ہوگئے۔ ریٹائر ہونے کے بعد دہلی آگئے اور اردو نیز انجمن ترقی اردو کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہوگئے۔ ملک تقسیم ہوگیا تو کراچی چلے گئے۔ اور وہاں بھی اردو کے فروغ کی کوشش میں لگے رہے۔ آخر وہیں 1961ء میں وفات پائی۔ بابائے اردو کی خدمت کے اعتراف میں الہ آباد یونیورسٹی نے 1937ء میں انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق کا یہ کارنامہ قابل قدر ہے کہ قدیم اردو ادب کا جو سرمایہ مخطوطات کی شکل میں صندوقچوں اور الماریوں میں بند تھا اور جس کے ضائع ہوجانے کا اندیشہ تھا مولوی صاحب نے اسے ترتیب دے کر شائع کیا اور برباد ہونے سے بچا لیا۔ ان کتابوں پر مولوی صاحب نے مقدمے لکھے، ان کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ مصنفین کے حالات زندگی دریافت کر کے ہم تک پہنچائے، ان تصانیف کے عہد کی خصوصیات واضح کیں اور اردو تنقید کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کردی۔
چھان بین کے بعد بہت سی غلط فہمیوں کو رد کیا مثلاً اس خیال کی تردید کی کہ میرامن کی باغ و بہار فارسی کے قصہ چہار دردیش کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے دلیلوں سے ثابت کردیا کہ اس کا ماخذ لوطرز مرصع ہے۔ مولوی صاحب کی زبان سادہ و سلیس ہوتی ہے جیسی تحقیق کے لیے ضروری ہے۔
مقدمات عبدالحق، خطبات عبدالحق، تنقیدات عبدالحق ان سے یادگار ہیں۔ فرہنگ، لغت اور اصطلاحات پر بھی انہوں نے کام کیا۔ ’’چند ہم عصر‘‘ ان کی مقبول کتاب ہے جس میں مختلف شخصیتوں پر مضمون شامل ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets