aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
دانیال طریر نے نظم اور غزل دونوں صنف میں اپنے آپ کو منوایا ہے۔ اس کے علاوہ تنقید پر بھی ان کی کتاب منظر عام پر آ چکی ہیں۔ دانیال طریر نے اپنے اسلوب میں روایات سے ہٹ کر نئی علامات کو ایک نفسیاتی کُل کی صورت میں اشعار کی زینت بنا کر لا شعور کی حرکت و حرارت کو متشکل کرنے کے جو تجربے کیے، وہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہیں۔ وہ اسطور کی فضا میں جس انوکھے انداز میں اپنے جذبات واحسات اور تخیل کی جولانیاں دکھاتا ہے، اسے قدیم روایات اور جدید ترین تصورات کے مابین سنگم کی ایک صورت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان کی غزلیں خاص نظریہ حیات کی ترسیل کرتی ہیں ، ان کے یہاں فن کی کائینات زندگی کی جمالیاتی کائنات سے منسلک ہے۔ زیر نظر کتاب کے حوالے سے دانیال طریر خود لکھتے ہیں" ہر طرف بے معنویت کا سیلاب امڈا ہوا ہے اس سیلاب نے تمام اشیاء کو اپنی لپیٹ میں لے کران کے معنی فانی کر دیے ہیں۔ "معنی فانی" کی نظموں کا جنم اسی تناظر میں ہوا ہے جس میں ژاک دریدا کی "رد تشکیل" کا فلسفہ بھی شامل ہے اور رولاں بارت کی "مصنف کی موت" کی تھیوری بھی۔ یہ نظمیں انفرادی اور اجتماعی المیوں کو پیش کرتے ہوئے، بے معنویت کی زد میں آئے ہوئے انسان، زندگی اور خدا کے ساتھ لکھاری اور لکھت کی معنویت کی تلاش میں بھی سرگرداں ہیں۔ میں نہیں جانتا یہ کوشش کتنی بار آور ہوئی ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ میں نے یہ تلاش پوری دیانت سے کی ہے اور اس تلاش کے لیے اپنی متخیلہ کو آزاد رکھا ہے تاکہ اس شاعری کا جغرافیہ حد لا حد تک وسیع ہو سکے"’معنی فانی‘‘ کی نظموں کے موضوعات ، زبان ، ہیئتیں اور تکنیکیں ان کے نظمیہ شعور کو بھی ہم پر آشکار کرتی ہیں۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free