aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
عظیم بیگ چغتائی کو ادب نواز طبقے نے "مصور ظرافت" کا خطاب عطا کیا۔ اور حقیقتا عظیم بیگ چغتائی اس خطاب کے مستحق تھے۔ انہوں نے افسانہ کو اپنے شوخ اور لطیف انداز بیاں کے ذریعے ایک نئے آہنگ سے روشناس کروایا۔ مرزا عظیم بیگ چغتائی زود نویس افسانہ اور ناول نگار تھے۔ یوں تو ان کو اردو ادب میں ایک افسانہ نویس اور ناول نگار کی حیثیت سے شہرت نصیب ہوئی لیکن انہوں نے مختلف موضوعات پر برجستہ قلم اٹھایا تھا۔ زیر نظر "مجموعہ عظیم بیگ چغتائی" میں دس ناولٹ شامل ہیں۔ ان ناولٹ کا مزاج بالکل نیا اور الگ ہے۔ انہیں طویل افسانہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ زیادہ ترناول دو یا تین حصوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ہر حصے کا باضابطہ عنوان بھی رکھا گیا ہے اور پھر ان حصوں میں پیش کیے گئے مناظر کو نمبرنگ کے ذریعہ واضح کیا گیا ہے۔ کسی کسی کہانی کے آخری حصے کو نتیجہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور اس کے بعد حواشی کے تحت ناولٹ میں ذکر کیے جانے والے افراد، مقامات اور الفاظ کی تشریح کردی گئی ہے۔ مجموعہ میں شامل ناولٹ کے عنوانات اچنبھے میں ڈالنے والے ہی ں،یہی وجہ ہے کہ جب قاری تذبذب میں ڈوبے عنوان کو دیکھتا ہے تو اس کے دماغ میں جستجو پیدا ہوتی ہے اور بلا اختیار اسے پڑھنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ان ناولٹ کا اسلوب عظیم بیگ چغتائی کو دوسرے لکھنے والوں سے ممتاز کرتا ہے۔
اردو کے مقبول مزاح نگاروں میں ایک نام عظیم بیگ چغتائی کا ہے۔ ان کے ہلکے پھلکے مزاح کی بنیاد لڑکپن کی شرارتوں پر ہے جن سے ہر انسان کو کبھی نہ کبھی سابقہ پڑا ہے۔ اس لیے عام لوگوں نے ان کی ظرافت کو بہت پسند کیا۔
عظیم بیگ چغتائی کی ولادت جودھ پور میں ہوئی۔ وہیں ابتدائی تعلیم پائی۔ ولادت سے وفات تک علالت کا سلسلہ جاری رہا۔ بے حد کمزور تھے اس لیے بہن بھائیوں کو ڈانٹ پڑتی رہتی تھی کہ انہیں نہ چھیڑیں، انہیں نہ ستائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو چوٹ لگ جائے۔ اس برتاؤ کا ان کی شخصیت پر برا اثر پڑا اور طبیعت میں ایک نفسیاتی گرہ پڑ گئی۔ عصمت چغتائی ان کی بہن تھیں۔ انہوں نے ’’دوزخی‘‘ کے عنوان سے ان کا خاکہ لکھا اور ان کی نفسیاتی پیچیدگیوں کا بہت دلچسپ انداز میں ذکر کیا۔ لڑکپن کی جن شرارتوں کی تصویریں عظیم بیگ چغتائی اپنی تحریروں میں کھینچتے ہیں وہ اس کمزوری کا فطری رد عمل ہے۔ طویل عرصے تک وہ دق کے مرض میں مبتلا دہے۔ آخر 1941ء میں وفات پائی۔
یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ عظیم بیگ چغتائی معاشرے میں پھیلی ہوئی فرسودہ روایتوں سے بیزار تھے اور اصلاح کی خواہش بھی رکھتے تھے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے ظریفانہ اورطنزیہ مضامین بھی لکھے۔ اس کے علاوہ ’’قرآن اور پردہ‘‘ جیسی سنجیدہ کتاب بھی لکھی۔
شریر بیوی، کولتار اور خانم کو اردو ادب میں بہت شہرت حاصل ہوئی۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets