aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
خواجہ میر درد کو اردو زبان و ادب کا صوفی شاعر اور درویش جانا جاتا ہے اور اردو زبان و ادب میں ان کی شناخت ایک صوفی شاعر کی حیثیت سے ہے ۔ حالانکہ نہ ان کی شاعری اردو زبان کی شاعری تک محدود ہے اور نہ ہی ان کا تصوف ہندوستانی تصوف تک محدود ہے۔ بلکہ ان کی شاعری کی جڑیں فارسی شاعری سے ملتی ہیں اور جس طرح سے ان کا اردو دیوان تصوف کے حلقے میں معروف ہے اسی طرح سے ان کا فارسی دیوان بھی صوفیہ کے یہاں قدر و منزلت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔اور ان کا تصوف بھی عالم گیری تصوف ہے ۔ درد جس طرح سے ہندوستانی نام نہاد تصوف سے بھاگتے ہوئے نظر آتے ہیں اسی طرح سے وہ عالمی تصوف کی بے ترتیبی سے بھی بھاگتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ انہوں نے جس طرح سے اردو فارسی زبان میں دواوین چھوڑے ہیں اسی طرح سے انہوں نے فارسی زبان میں کئی رسالے تحریر کئے جو موضوع کے اعتبار سے متصوفانہ خیالات کے حامل ہیں ۔ اس مجموعہ میں ان کے چار رسالے شامل ہیں جو انہوں نے وقتا فوقتا تحریر کئے ہیں۔ سب سے پہلے" نالہ درد" کو اس انتخاب میں جگہ دی گئی ہے جو 1310 ھ میں تحریر کیا گیا ہے ۔یہ رسالہ نالہ کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے جس میں متصوفانہ خیالات کو بہت ہی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے اور جابجا انہوں نے اپنے اشعار کی پیوندکاری کی ہے جو نثر کو اور بھی خوبصورت بناتا ہے۔ اس کے بعد " آہ سرد " کے نام سے رسالہ کو جگہ ملی ہے ۔ یہ رسالہ بھی درد کے متصوفانہ خیالات کی ترجمانی کرتا ہے ۔ پھر " درد دل " کے عنوان کا رسالہ شامل ہے جس میں بھی انہوں نے اپنے متصوفانہ خیالات کی وضاحت کی ہے۔ ان کا چوتھا رسالہ " شمع محفل " کے عنوان سے درج کیا گیا ہے اور اس میں بھی درد کے متصوفانہ خیالات بیان کئے گئے ہیں ۔ ان چاروں رسالوں میں یہ بات عام ہے کہ جب بھی وہ کوئی نئی بات شروع کرتے ہیں تو رسالے کے نام کے پہلے الفاظ سے بات کو شروع کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے دیگر رسائل تحریر کئے ہیں جن میں نماز پر ایک رسالہ ہے اور دوسرا "علم الکتاب" کے نام سے ہے جو کہ ایک ضخیم کتاب ہے۔
مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے
خواجہ میر درد ؔکو اردو میں صوفیانہ شاعری کا امام کہا جاتا ہے۔ دردؔ اور تصوف لازم و ملزوم بن کر رہ گئے ہیں۔ یقیناً دردؔ کے کلام میں تصوف کے مسائل اور صوفیانہ حسّیت کے حامل اشعار کی کثرت ہے لیکن انہیں محض اک صوفی شاعر کہنا ان کی شاعری کے ساتھ نا انصافی ہے۔ ابتدائی تذکرہ نویسوں نے ان کی شاعری کو اس طرح محدود نہیں کیا تھا، صوفی شاعر ہونے کا ٹھپہ ان پر بعد میں لگایا گیا۔ میر تقی میرؔ نے، جو اپنے سوا کم ہی کسی کو خاطر میں لاتے تھے، انہیں ریختہ کا "زور آور" شاعر کہتے ہوئے انہیں "خوش بہار گلستان سخن" قرار دیا۔ محمد حسین آزاد نے کہا کہ کہ دردؔ تلواروں کی آبداری اپنے نشتروں میں بھر دیتے ہیں، مرزا لطف علی صاحب، "گلشن سخن" کے مطابق دردؔ کا کلام "سراپا درد و اثر" ہے۔ میر حسن نے انھیں، آسمان سخن کا خورشید قرار دیا، پھر امداد اثرنے کہا کہ معاملات تصوف میں ان سے بڑھ کر اردو میں کوئی شاعر نہیں گزرا اور عبد السلام ندوی نے کہا کہ خواجہ میر دردؔ نے اس زبان (اردو) کو سب سے پہلے صوفیانہ خیالات سےآشنا کیا۔ ان حضرات نے بھی دردؔ کو تصوف کا ایک بڑا شاعر ہی مانا ہے ان کے کلام کی دوسری صفات سے انکار نہیں کیا ہے۔ شاعری کی پرکھ، یوں بھی "کیا کہا ہے" سے زیادہ " کیسے کہا ہے" پر مبنی ہوتی ہے دردؔ کی شاعری کے لئے بھی یہی اصول اپنانا ہو گا۔
دردؔ ایک صاحب اسلوب شاعر ہیں۔ ان کے بعض سادہ اشعار پر میرؔ کے اسلوب کا دھوکہ ضرور ہوتا ہے لیکن توجہ سے دیکھا جائے تو دونوں کا اسلوب یکسر جداگانہ ہے۔ درد کی شاعری میں غور و فکر کا عنصر نمایاں ہے جبکہ میرؔ فکر کو احساس کا تابع رکھتے ہیں البتہ عشق میں سپردگی اور گداز دونوں کے یہاں مشترک ہے اور دونوں آہستہ آہستہ سلگتے ہیں۔ دردؔ کے یہاں مجازی عشق بھی کم نہیں۔ جیتے جاگتے محبوب کی جھلکیاں جا بجا ان کے کلام میں مل جاتی ہیں۔ ان کا مشہور شعر ہے۔
کہا جب میں ترا بوسہ تو جیسے قند ہے پیارے
لگا تب کہنے پر قند مکرر ہو نہیں سکتا
دردؔ کی شاعری بنیادی طور پر عشقیہ شاعری ہے ان کا عشق مجازی بھی ہے، حقیقی بھی اور ایسا بھی جہاں عشق و مجاز کی سرحدیں باقی نہیں رہتیں۔ لیکن ان تینوں طرح کے اشعار میں احساس کی صداقت واضح طور پر نظر آتی ہے، اسی لئے ان کے کلام میں تاثیر ہے جو صناعی کے شوقین شعراء کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ دردؔ نے خود کہا ہے، "فقیر نے کبھی شعر آورد سے موزوں نہیں کیا اور نہ کبھی اس میں مستغرق ہوا۔ کبھی کسی کی مدح نہیں کی نہ ہجو لکھی اور فرمائش سے شعر نہیں کہا۔" درد ؔکے عشق میں بے چینی نہیں بلکہ ایک طرح کی طمانیت قلب، سکون اور پاکیزگی ہے جعفر علی خاں اثر کے بقول دردؔ کے پاکیزہ کلام کے لئے پاکیزہ نگاہ درکار ہے۔
دردؔ کے کلام میں عشق و عقل، جبر و اختیار، خلوت اور انجمن، سفر در سفر، بے ثباتی وبے اعتباری، بقا اور فنا، مکان و لامکاں، وحدت و کثرت، جزو و کل توکل اور فقر کے مضامین کثرت سے ملتے ہیں۔ فی زمانہ، تصوف کا وہ برانڈ، جس کے دردؔ تاجر تھے، اب فیشن سے باہر ہو گیا ہے۔ اس کی جگہ سنجیدہ طبقہ میں سرمد اور رومی کا برانڈ اور عوام میں بلھے شاہ، سلطان باہو اور "دما دم مست قلندر" والا برانڈ زیادہ مقبول ہے۔
غزل کی شاعری برملا کم اور اشاروں میں زیادہ بات کرتی ہے اس لئے اس میں معانی کی حسب منشاء جہات تلاش کر لینا کوئی مشکل کام نہیں یہ غزل کی ایسی طاقت ہے کہ وقت کے تند جھونکے بھی اس چراغ کو نہیں بجھا سکے۔ ایسے میں اگر مجنوں گوکھپوری نے درد کے کلام میں "کہیں دبی ہوئی اور کہیں اعلانیہ، کبھی زیر لب اور کبھی کھلے ہونٹوں شدید طنزکے ساتھ زمانہ کی شکایت اور زندگی سے بیزاری کی علامتیں" تلاش کیں تو بہرحال ان کا ماخذ دردؔ کا کلام ہی تھا۔ مجنوں کہتے ہیں درردؔ اپنے زمانہ کے حالات سے نا آسودگی کا اظہار کرتے ہیں۔
دردؔ کے کلام کو ان کے زمانہ کے معاشرتی اور فکری ماحول اور ان کی نجی شخصیت کے حوالہ سے پڑھنا چاہیے۔ جہاں تک پیرایۂ بیان کا تعلق ہے اپنی بات کو دبے لفظوں میں تشنۂ وضاحت چھوڑ جانا دردؔ کو تمام دوسرے شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔ اس طرح کے اشعار میں ان کہی بات، وضاحت کے مقابلہ میں زیادہ اثردار ہوتی ہے۔ حیرت و حسرت کا یہ دھندھلا سا اظہار ان کے اشعار کا خاص جوہر ہے۔ اس سلسلہ میں رشید حسن خاں نے پتے کی بات کہی ہے وہ کہتے ہیں، "دردؔ کے جن اشعار میں خالص تصوف کی اصطلاحیں استعمال ہوئی ہیں یا جن میں مجازیات کو صاف صاف پیش کیا گیا ہے وہ نہ دردؔ کے نمائندہ اشعار ہیں نہ ہی اردو غزل کے۔ یہ بات ہم کو مان لینی چاہئے کہ اردو میں فارسی کی صوفیانہ شاعری کی طرح بلند پایہ متصوفانہ شاعری کا فقدان ہے۔ ہاں، اس کے بجائے اردو میں حسرت، تشنگی اور یاس کا جو طاقتور آہنگ کار فرما ہے، فارسی غزل اس سے بڑی حد تک خالی ہے۔"
مجموعی طور پر دردؔ کی شاعری دل اور روح کو متاثر کرتی ہے۔ جذباتیت اور شاعرانہ "استادی" کا اظہار ان کا شعار نہیں، دردؔ موسیقی کے ماہر تھے، ان کے کلام میں بھی موسیقیت ہے۔ دردؔ تبھی شعر کہتے تھے جب شعر خود کو ان کی زبان سے کہلوا لے۔ اسی لئے ان کا دیوان بہت مختصر ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets