میر محبوب علی آصف خان 1866 میں پیدا ہوئے۔۔انہیں 884 میں مکمل اختیارات کے ساتھ قلمرو آصفی کا حضور نظام تسلیم کر لیا گیا۔حیدر آباد میں سرکاری زبان انہیں کے دور 1884 ء میں فارسی سے اردو کر دی گئی۔
اردو کے بہترین شاعر تھے لیکن فارسی ، عربی اور انگریزی پر بھی عبور کھتے تھے۔فرہنگ آصفیہ ان ہی کی سرپرستی کا نتیجہ تھا۔ مولوی سید بلگرامی سے تمدن عرب اور تاریخ غیرہ جیسی کتابیں محبوب علی ضان آصف نے ہی لکھوائی ہیں۔مولوی عبدالحق مصنف تفسیر حقانی،قدر بلگرامی،مولانا شبلی، الطاف حسین حالی،پنڈت رتن ناتھ سرشار، مولانا عبدلحلیم شرر جیسے ان گنت ارباب علم نے ان کی سرپرستی میں ساری زندگی کسب معاش سے بے نیاز ہو کرآرام سے گذار دی۔داغؔ دہلوی کا سرکار آصفیہ سے پندرہ سو روپیہ وظیفہ مقرر تھا۔ممدوح کی علمی سرپرستی کی وجہ سے انہیں شاہ العلوم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
میر محبوب علی خان آصفؔ تخلص کرتے تھے، وہ داغ دہلوی اور حضرت جلیل مانک پوری کے شاگرد تھے۔موصوف و جملہ اصناف سخن پر قدرت حاصل تھی۔غزلیات کے علاوہ 'تعلیم' اور 'اصلاح فوج' وغیرہ کے متعلق انہوں نے بہت سی اخلاقی نظمیں کہی ہیں۔غزلوں میں جگہ جگہ اخلاق کا درس ملتا ہے مثلاً ان کے یہ دو مقطعے۔۔
آصف کو جان ومال سے اپنے نہیں دریغ
گر کام آئے خلق کی راحت کے واسطے
آصفؔ کا ہے یہ قال سنہیں صاحب غیرت
احسان نہ لے ہمت مردانہ کسی کا
اعلیٰ حضرت شاہالعلوم آصفؔ نے تغزل میں بھی بڑے اچھے اشعار کہے ہیں
کبھی نہ دب کے لیں گے ہم ان سے آصف
وہ شاہِ حسن سہی، شہر یار ہم بھی ہے
لو اور سنوکہتے ہیں وہ دیکھ کر مجھکو
یہ شخص بلا شبہ ہے دیوانہ کسی کا
نہیں ہے اگر تو ہماراتو کیا ہے
زمانہ میں کوئی کسی کا ہوا ہے
1911 میں اردو کے اس محسن اعظم نے رحلت پائی۔