aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زیر نظر کتاب "مکاتیب غالب" ہے۔ یہ وہ خطوط ہیں جو غالب نے نواب خلد آشیاں اور دیگر وابستگان دربار کی خدمت میں لکھے تھے۔ ان خطوط اور عرضیوں سے غالب کی زندگی کا ایک الگ باب کھلتا ہے۔ ان خطوط کو امتیاز علی خاں عرشی نے مرتب کیا ہے۔ یوں تو امتیاز علی عرشی نے کئی علمی و تحقیقی کاموں کو سرانجام دیا ہے لیکن غالب شناسی ان کا ایک قابل قدر اور اہم کارنامہ ہے۔ مولانا عرشی کے مکاتب غالب اور نسخہ غالب میں ان کے مقدمہ کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے غالب کے حالات ان کی شخصیت اور دوسری باتوں کو صرف اسی لئے من و عن قبول نہیں کیا ہے کہ انہیں غالب نے کہا ہے بلکہ انہوں نے ہر بات ہر واقعہ کو تحقیق کی کسوٹی پر پرکھا ہے۔ اسی لیے جگہ جگہ انہوں نے غالب کی باتوں سے اختلاف کیا ہے اور غالب سے متعلق جو کچھ بھی لکھا گیا ہے اسے بھی تنقید کی کسوٹی پر پرکھ کر ہی اپنی تحریر میں شامل کیا ہے۔ نیز ان کے مکاتیب کے حواشی بھی غالب شناسی میں ایک اہم کڑی ہیں۔ مکاتیب غالب کی پہلی اشاعت ۱۹۳۷ میں ہوئی تھی۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets