aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ابراہیم جلیس کا تعلق حیدرآباد دکن کی مردم خیز سرزمین سے تھا۔ وہ 11 اگست 1922ءکو بنگلور میں پیدا ہوئے لیکن ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت گلبرگہ حیدرآباد دکن میں ہوئی۔ 1942ءمیں انہوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے گریجویشن کیا اور تقریباً اسی زمانے میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ابراہیم جلیس کی صحافتی زندگی کا آغاز حیدرآباد دکن سے ہی ہوا۔ 1948ءمیں وہ پاکستان چلے آئے یہاں وہ مختلف اخبارات سے وابستہ رہے جن میں امروز، انجام، جنگ، حریت اور مساوات شامل تھے۔ وہ کچھ عرصے روزنامہ انجام کے مدیر بھی رہے اور انہوں نے اپنا ایک ہفت روزہ بھی عوامی عدالت کے نام سے جاری کیا۔ عمر کے آخری حصے میں وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے ترجمان روزنامہ مساوات کے مدیر تھے جو 1977ءمیں مارشل لاءلگنے کی وجہ سے حکومت کی زیر عتاب آگیا۔ لیکن ابراہیم جلیس نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور اسی جدوجہد کے دوران 26 اکتوبر 1977ءکو دماغ کی شریان پھٹنے سے ان کا انتقال ہوگیا۔ابراہیم جلیس ایک بہت اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ ان کا پہلا افسانہ ”رشتہ“ فروری. 1943ءمیں ساقی میں شائع ہوا تھا۔ انہوں نے متعدد کتابیں یادگار چھوڑیں جن میں زرد چہرے، چالیس کروڑ بھکاری، دو ملک ایک کہانی، الٹی قبر، آسمان کے باشندے، جیل کے دن جیل کی راتیں، اوپر شیروانی اندر پریشانی، نیکی کر تھانے جا، ہنسے اور پھنسے کے علاوہ روس، امریکا اور ایران کے سفرنامے خصوصاً قابل ذکر ہیں۔
ابراہیم جلیس کے انتقال کے 12 برس بعد 14 اگست 1989ء کو حکومت پاکستان نے جناب ابراہیم جلیس کی خدمات کے اعتراف میں انہیں بعدازمرگ تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free