aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو فکشن کا ایک بڑا نام منٹو ہے۔جس نے روایت سے ہٹ کر اپنی منفرد پہچان بنائی۔ان کا طرز تحریر پختہ ،رواں اور مستدل ہے۔منٹو نے عام انسانی زاویہ کو پیش کیاہے خواہ لوگوں نے انھیں کتنا ہی سفاک ،کھردرا اور غیر جذباتی سمجھا ہو،لیکن وہ اپنے گردوپیش میں جو ظلم ، استحصال، درد تکلیف، سماجی ناانصافیاں دیکھتے تھے اسی کو بے باکی سے افسانوں کے پیکر میں ڈھالتےتھے۔ منٹو کے داخلی بے چینی ،کرب ،احساس کی تلخی جو منٹو کی کہانیوں میں تیکھے طنز، اور سماجی احتجاج کی شکل میں نمایاں ہے۔ اسی کو جگدیش چندر نے "منٹو نامہ " میں بیان کیا ہے۔ منٹو کے یہاں عشق کا جذبہ دیگر معاصرین سے بہت مختلف رہا ہے۔ان کے یہا ں عشق کا تصور بے حد عارضی اور حقیقت پسندانہ ہے۔ کتاب کے مطالعے سے منٹو کی شخصیت کے بعض ایسے پوشیدہ گوشے منور ہوجاتے ہیں۔جس کو دوسروں نے نظر انداز کیا ہے۔جیسے منٹو کی انانئیت اور خود پسندی۔ یہ کتاب منٹو کی حیات اور تخلیقی کارناموں کی بازیافت ہے۔جس میں کہیں کوئی الجھاؤ ،انتشار اور تکرار نہیں ہے۔مصنف نے کتاب کی آخر میں منٹو کی منتخبہ افسانوں کا تجزیہ بھی پیش کیاہے۔اس کے علاوہ منٹو کے مکاتیب، مرقع نگاری اور زبان کے تخلیقی استعمال پر بھی جگدیش چندر نے اچھے اندا زمیں اظہار خیال کیا ہے۔اس طرح مصنف نے مکمل کوشش کی ہے کہ منٹو نامہ میں منٹو کی شخصیت و فن کا کوئی گوشہ نہ چھوٹے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free