aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تاریخ اُرد و زبان و ادب کے گلستان میں کچھ شگفتہ اور سدابہار شخصیات ایسی ہیں جن پر کبھی خزاں کا گزر نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ تروتازہ رہتی ہیں اور اپنی خوشبوئے تازہ سے فضا ئے اُردو کو ہمیشہ معطر ومعنبربنائے رکھتی ہیں ۔ ایسی ہی نادر الوجود اور عظیم شخصیات میں سے ایک دُرّ نایاب حافظ محمود خاں شیرانی کی شخصیت ہے جنھیں اُردو مدرسۃ التحقیق کا معلم اوّل تسلیم کیا جاتا ہے۔ شیرانی کی ادبی تحقیق و تدوین کا رتبہ دنیائے ادب میں نہایت بلند ہے۔ انہوں نے بہت سے غلط نظریات اور مسخ شدہ تاریخی حقائق کی درستگی کا فریضہ کمال ذمہ داری سے انجام دیا ہے۔ شیرانی صاحب نے تحقیقات کی ایک ایسی روایت قائم کی جس کی بنیاد نئے ماخذ کی دریافت پر ہے۔ چنانچہ انہوں نے سینکڑوں نئے ماخذ کی روشنی میں نئے نتائج نکالے ہیں۔ انہوں کئی کتابوں کے علاوہ پچاسوں تحقیقی مقالات لکھے ہیں۔ جن میں حیرت انگیز انکشافات ہوئے ہیں۔ ان کے پوتے مظہر محمود شیرانی نے ۱۹۸۷ میں ڈاکٹر وحید قریشی کی نگرانی میں اپنے دادا کی علمی و ادبی خدمات پر پی ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ نیز حافظ محمود شیرانی کے مقالات کو تلاش کر کے دس جلدوں میں مرتب کیا ہے۔ زیر نظر انہیں مقالات کی تیسری جلد ہے جس میں اردو کے کلاسیکی ادب پر پانچ اہم مقالے، شامل ہیں۔