aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
میرانیس نے مرثیہ کو اردو شاعری کی ایک مقدس و معتبر صنف کے طور پر پیش کیا۔ان کی مرثیہ نگاری میں چہرہ، سراپا، رخصت،آمد رجز، جنگ،شہادت، بین،جذبات نگاری،منظر نگاری،تصادم،کشمکش،غرض ہر رنگ نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ ان کے مرثیے رزمیہ شاعری کے شاہکار ہیں۔ میر انیس کے کہے ہوئے مرثیوں میں آیات وروایات،تاریخ،تخیئل،ماحول،سراپا،رَجَز،مظلومیت،آہ و بکا،مکالمات،اعدادوشمار،منطق وفلسفہ،علومِ جہانی اوراصول وعقائدکےمفاہیم کی ایسی متوازن آمیزش ملتی ہے کہ انیس کے علم و فضل کی وسعتیں بیکراں محسوس ہونے لگتی ہیں۔ مناظر ِ قدرت کے بیان،انسانی جذبات کی مصوری اور رزم آرائی میں انہوں نے حیرت انگیز واقفیت کا ثبوت دیا ہے۔ زیر نظر کتاب مراثی میرانیس کی چوتھی جلد ہے۔
میر ببر علی انیس ان شاعروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اردو کی رثائی شاعری کو اپنی خلاقی سے معراج کمال تک پہنچا دیا۔ صنف مرثیہ میں انیس کا وہی مقام ہے جو مثنوی کی صنف میں ان کے دادا میر حسن کا ہے۔ انیس نے اس عام خیال کو باطل ثابت کر دیا اردو میں اعلی درجہ کی شاعری صرف غزل میں کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے رثائی شاعری کو جس مرتبہ تک پہنچایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انیس آج بھی اردو میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعروں میں سے ایک ہیں۔
میر ببر علی انیس 1803 میں فیض آباد میں پیدا ہوئے، ان کے والد میر مستحسن خلیق خود بھی مرثیہ کے ایک بڑے اور نامور شاعر تھے۔ انیس کے پر دادا ضاحک اور دادا میر حسن(مصنف مثنوی سحر البیان)تھے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس خاندان کے شاعروں نے غزل سے ہٹ کر اپنی الگ راہ نکالی اور جس صنف کو ہاتھ لگایا اسے کمال تک پہنچا دیا۔ میر حسن مثنوی میں تو انیس مرثیہ میں اردو کے سب سے بڑے شاعر قرار دئے جا سکتے ہیں۔
شاعروں کے گھرانے میں پیدا ہونے کی وجہ سے انیس کی طبیعت بچپن سے ہی موزوں تھی اور چار پانچ برس کی ہی عمر میں کھیل کھیل میں ان کی زبان سے موزوں شعر نکل جاتے تھے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم فیض آباد میں ہی حاصل کی۔ مروجہ تعلیم کے علاوہ انہوں نے سپہ گری میں بھی مہارت حاصل کی۔ ان کا شمار علماء کی صف میں نہیں ہوتا ہے تاہم ان کی علمی معلومات کا سب کو اعتراف ہے۔ ایک بار انہوں نے سر منبر علم ہیئت کی روشنی میں سورج کے گرد زمین کی گردش کو ثابت کر دیا تھا۔ ان کو عربی اور فارسی کے علاوہ بھاشا(ہندی) سے بھی بہت دلچسپی تھی اور تلسی و ملک محمد جائسی کے کلام سے بخوبی واقف تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ لڑکپن میں خود کو ہندو ظاہر کرتے ہوئے ایک برہمن عالم سے ہندوستان کے مذہبی صحیفے سمجھنے جایا کرتے تھے۔ اسی طرح جب پاس پڑوس میں کسی کی موت ہو جاتی تھی تو وہ اس گھر کی خواتین کی نالہ و زاری اور اظہار غم کا گہرائی سے مطالعہ کرنے جایا کرتے تھے۔ یہ مشاہدات آگے چل کر ان کی مرثیہ نگاری میں بہت کام آئے۔
انیس نے بہت کم عمری میں ہی باقاعدہ شاعری شروع کر دی تھی۔ جب ان کی عمر نو برس تھی انہوں نے ایک سلام کہا۔ ڈرتے ڈرتے باپ کو دکھایا۔ باپ خوش تو بہت ہوئے لیکن کہا کہ تمہاری عمر ابھی تحصیل علم کی ہے۔ ادھر توجہ نہ کرو۔ فیض آباد میں جو مشاعرے ہوتے، ان سب کی طرح پر وہ غزل لکھتے لیکن پڑھتے نہیں تھے۔ تیرہ چودہ برس کی عمر میں والد نے اس وقت کے استاد شیخ امام بخش ناسخ کی شاگردی میں دے دیا۔ ناسخ نے جب ان کے شعر دیکھے تو دنگ رہ گئے کہ اس کم عمری میں لڑکا اتنے استادانہ شعر کہتا ہے۔ انہوں نے انیس کے کلام پر کسی طرح کی اصلاح کو غیر ضروری سمجھا، البتہ ان کا تخلص جو پہلے حزیں تھا بدل کر انیس کر دیا۔ انیس نے جو غزلیں ناسخ کو دکھائی تھیں ان میں ایک شعر یہ تھا۔
سبب ہم پر کھلا اس شوخ کے آنسو نکلنے کا
دھواں لگتا ہے آنکھوں میں کسی کے دل کے جلنے کا
تیرہ چودہ برس کی عمر میں انیس نے اپنے والد کی غیر موجودگی میں گھر کی زنانہ مجلس کے لئے ایک مسدس لکھا۔ اس کے بعد وہ رثائی شاعری میں تیزی سے قدم بڑھانے لگے اس میں ان کی محنت اور ریاضت کا بڑا ہاتھ تھا۔ کبھی کبھی وہ خود کو کوٹھری میں بند کر لیتے، کھانا پینا تک موقوف کر دیتے اور تبھی باہر نکلتے جب حسب منشاء مرثیہ مکمل ہو جاتا۔ خود کہا کرتے تھے، "مرثیہ کہنے میں کلیجہ خون ہو کر بہہ جاتا ہے۔" جب میر خلیق کو، جو اس وقت تک لکھنؤ کے بڑے اور اہم مرثیہ نگاروں میں تھے، پورا اطمینان ہو گیا کہ انیس ان کی جگہ لینے کے قابل ہو گئے ہیں تو انہوں نے بیٹے کو لکھنؤ کے باذوق اور نکتہ رس سامعین کے سامنے پیش کیا اور میر انیس کی شہرت پھیلنی شروع ہو گئی۔ انیس نے مرثیہ گوئی کے ساتھ مرثیہ خوانی میں بھی کمال حاصل کیا تھا۔ محمد حسین آزاد کہتے ہیں کہ انیس قد آدم آئینہ کے سامنے، تنہائی میں گھنٹوں مرثیہ خوانی کی مشق کرتے۔ وضع، حرکات و سکنات اور بات بات کو دیکھتے اور اس موزونی اور نا موزونی کی خود اصلاح کرتے۔ کہا جاتا کہ سر پر صحیح طریقہ سے ٹوپی رکھنے میں ہی کبھی کبھی ایک گھنٹہ لگا دیتے تھے۔
اودھ کے آخری نوابوں غازی الدین حیدر، امجد علی شاہ اور واجد علی شاہ کے زمانہ میں انیس نے مرثیہ گوئی میں بے پناہ شہرت حاصل کر لی تھی۔ ان سے پہلے دبیر بھی مرثئے کہتے تھے لیکن وہ مرثیہ خوانی کو کسی فن کی طرح برتنے کی بجائے سیدھا سادہ پڑھنے کو ترجیح دیتے تھے اور ان کی شہرت ان کے کلام کی وجہ سے تھی جبکہ انیس نے مرثیہ خوانی میں کمال پیدا کر لیا تھا۔ آگے چل کر مرثیہ کے ان دونوں استادوں کے الگ الگ مداح پیدا ہو گئے۔ ایک گروہ انیسیا اور دوسرا دبیریا کہلاتا تھا۔ دونوں گروپ اپنے اپنے ممدوح کو برتر ثابت کرنے کی کوشش کرتے اور دوسرے کا مذاق اڑاتے۔ انیس اور دبیر ایک ساتھ کسی مجلس میں مرثیہ نہیں پڑھتے تھے۔ صرف ایک بار شاہی گھرانے کے اصرار پر دونوں ایک مجلس میں یکجا ہوئے اور اس میں بھی انیس نے یہ کہہ کر کہ وہ اپنا مرثیہ لانا بھول گئے ہیں، اپنے مرثئے کی بجائے اپنے بھائی مونس کا لکھا ہوا حضرت علی کی شان میں ایک سلام صرف ایک مطلع کے اضافہ کے ساتھ پڑھ دیا اور منبر سے اتر آئے۔ مونس کے سلام میں انہوں نے جس فی البدیہ مطلع کا اضافہ کر دیا تھا وہ تھا۔
غیر کی مدح کروں شہ کا ثنا خواں ہو کر
مجرئی اپنی ہوا کھووں سلیماں ہو کر
یہ در اصل دبیر پر چوٹ تھی جنہوں نے حسب روایت مرثیہ سے قبل بادشاہ کی شان میں ایک رباعی پڑھی تھی۔ اس کے باجود عمومی طور پر انیس اور دبیر کے تعلقات خوشگوار تھےاور دونوں ایک دوسرے کے کمال کی قدر کرتے تھے۔ دبیر بہت منکسر المزاج اور صلح کل انسان تھے جبکہ انیس کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ ان کی پیچیدہ شخصیت اور نازک مزاجی کے واقعات اور ان کی مرثیہ گوئی اور مرثیہ خوانی نے انہیں ایک افسانوی شہرت دے دی تھی اور ان کا شمار لکھنؤ کے ممتاز ترین شہریوں میں ہوتا تھا۔ اس زمانہ میں انیس کی شہرت کا یہ حال تھا کہ صاحب اقتدار امیر، نامور شہزادے اور عالی خاندان نواب زادے ان کے گھر پر جمع ہوتے اور نذرانے پیش کرتے۔ اس طرح ان کی آمدنی گھر بیٹھے ہزاروں تک پہنچ جاتی لیکن اس فراغت کا زمانہ مختصر رہا 1856 میں انگریزوں نے اودھ پر قبضہ کر لیا۔ لکھنؤ کی خوشحالی رخصت ہو گئی۔ گھر بیٹھے رزق پہنچنے کا سلسلہ بند ہو گیااور انیس دوسرے شہرں میں مرثیہ خوانی کے لئے جانے پر مجبور ہو گئے۔ انہوں نے عظیم آباد(پٹنہ)، بنارس، الہ آباد اور حیدرآباد میں مجلسیں پڑھیں جس کا اثر یہ ہوا، دور دور کے لوگ ان کے کلام اور کمال سے واقف ہو کر اس کے مداح بن گئے۔
انیس کی طبیعت آزادی پسند تھی اور اپنے اوپر کسی طرح کی بندش ان کو گوارہ نہیں تھی ایک بار نواب امجد علی شاہ کو خیال پیدا ہوا کہ شاہنامہ کی طرز پر اپنے خاندان کی ایک تاریخ نظم کرائی جائے۔ اس کے لئے نظر انتخاب انیس پر پڑی۔ انیس نے پہلے تو اخلاقاً منظور کر لیا لیکن جب دیکھا کہ ان کو شب و روز سرکاری عمارت میں رہنا ہو گا تو کسی حیلہ سے انکار کر دیا۔ بادشاہ سے وابستگی، اس کی کل وقتی ملازمت، شاہی مکان میں مستقل سکونت دنیوی ترقی کی ضمانتیں تھیں۔ بادشاہ اپنے خاص ملازمین کو خطابات دیتے تھے اور دولت سے نوازتے تھے۔ لیکن انیس نے شاہی ملازمت قبول نہیں کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن انگریزوں نے اودھ پر قبضہ کر کے ان کا رزق چھینا تھا وہی ان کو پندرہ روپے ماہوار وظیفہ اس لئے دیتے تھے ک کہ وہ میر حسن کے پوتے تھے جن کی مثنوی فورٹ ولیم کالج کے نصاب اور اس کی مطبوعات میں شامل تھی۔
جس طرح انیس کا کلام سحر آمیز ہے اسی طرح ان کا پڑھنا بھی مسحور کن تھا۔ منبر پر پہنچتےہی ان کی شخصیت بدل جاتی تھی۔ آواز کا اتار چڑھاؤ آنکھوں کی گردش اور ہاتھوں کی جنبش سے وہ اہل مجلس پر جادو کر دیتے تھے اور لوگوں کو تن بدن کا ہوش نہیں رہتا تھا۔ مرثیہ خوانی میں ان سے بڑھ کر ماہر کوئی نہیں پیدا ہوا۔ آخری عمر میں انہوں نے مرثیہ خوانی بہت کم کر دی تھی۔ 1874 ء میں لکھنؤ میں ان کا انتقال ہوا۔ انہوں نے تقریباً 200 مرثئے اور 125 سلام لکھے، اس کے علاوہ تقریباً 600 رباعیاں بھی ان کی یادگار ہیں۔
انیس ایک نابغہ ٔ روزگار شخصیت تھے۔ اگر وہ مرثیہ کی بجائے غزل کو اظہار کا ذریعہ بناتے تب بھی ان کا شمار بڑے شاعروں میں ہوتا۔ غزل پر توجہ نہ دینے کے باوجود ان کے کئی شعر خاص و عام کی زباں پر ہیں۔
خیال خاطر احباب چاہئے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
انیس کا کلام اپنی فصاحت، منظر نگاری اور زبان کے ساتھ ان کے خلاقانہ برتاؤ کے لئے ممتاز ہے۔ وہ ایک پھول کے مضمون کو سو طرح پر باندھنے پر قادر تھے۔ ان کی شاعری اپنے عہد کی نفیس زبان اور تہذیب کی آئینہ دار ہے۔ انہوں نے مرثیہ کی تنگنائے میں گہرائی سے غوطہ لگا کر ایسے بیش بہا گوہر نکالے جن کی اردو مرثیہ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets