Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : آل احمد سرور

ناشر : ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

سن اشاعت : 2011

زبان : Urdu

موضوعات : تحقیق و تنقید

ذیلی زمرہ جات : تنقید

صفحات : 297

ISBN نمبر /ISSN نمبر : 978-81-7587-650-7

معاون : خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی، لکھنؤ

مسرت سے بصیرت تک
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

کتاب: تعارف

آل احمد سرور اردو کے سر کردہ اور نامور نقاد تھے۔ آزادی کے بعد ہماری تنقید کو جن ناقدین نے اپنے علم اور اپنی بصیرت سے توانا کیا اور جس کے وزن اور وقار میں غیر معمولی اضافہ کیا اُن میں آل احمد سرور کا نام خاص اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے مغربی افکار تصورات اور خیالات کو حاصل کیا اور مغربی تہذیب اور افکار کی میراث سے بھی براہ راست استفادہ کیا۔ تاہم مغرب کی چکا چوند سے اپنے آپ کو دور رکھا۔ وہ ایک غیرجانبدار، مصنف مزاج اور کھلا ذہن رکھنے والے نقاد ہیں۔انہوں نے کبھی کسی نظریہ کو اپنے پاؤں کی زنجیر نہیں بننے دیا،خود کو کسی گروہ سے وابستہ نہیں کیا اور کبھی آزادی فکر و نذر کا سودا نہیں کیا۔ انہوں نے ہر دور میں ادب کی صالح اور صحت مند روایات و رجحانات کی پاسداری کی۔ دانشوری کی زندہ روایت، تنقید کے ایک سربراہ آوردہ رہنما کی حیثیت سے اردو ادب میں اپنا مستقل مقام بنا لیا۔ آل احمد سرور نے بے شمار تنقیدی مضامین لکھے۔ زیر نظر "مسرت سے بصیرت" تک اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، اس کتاب میں مختلف موضوعات پر تیرہ تنقیدی مضامین شامل ہیں۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

آل احمد سرور 9 ستمبر 1911 کو بدایوں کے ایک ذی علم گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1928 میں ہائی اسکول پاس کیا۔ اس کے بعد سینٹ جانس کالج آگرہ سے بی ایس سی کی۔ 1932 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایم اے انگریزی میں داخلہ لیا۔ 1936 میں علیگڑھ ہی سے اردو میں بھی ایم اے کیا۔ 1938 میں شعبۂ اردو میں لکچرر ہوگئے۔ 1946  سے 1955  تک لکھنؤ یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ 1955  میں پھر علیگڑھ آگئے اور رشید احمد صدیقی کے بعد شعبے کے صدر رہے۔ 
 لکھنؤ میں اپنے قیام کے دوران سرور ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوئے اور انجمن کے جلسوں میں شریک ہونے لگے لیکن وہ کبھی بھی ترقی پسند نظریاتی جبر کا شکار نہیں ہوئے ۔ ان کی ترقی پسند فکر ہمیشہ انسان دوستی کی علمبردار رہی ، وہ سرمایہ داری اور رجعت پسندی کی مخالفت کرتے رہے لیکن ادب کے اس ہنگامی اور انقلابی تصور کے خلاف رہے جس کا پرچار اس وقت میں جوشیلے نوجوان کر رہے تھے۔ سرور نے مغربی اور مشرقی ادب کے گہرے مطالعے کے بعد اپنی تنقید نگاری کے لئے ایک الگ ہی انداز دریافت کیا۔ اس میں مغربی تنقیدی اصولوں سے استفادہ بھی ہے اور مشرقی اقدار کا رچاو بھی۔ 
تنقید نگار کے ساتھ ایک شاعر کے طور پر بھی سرور منفرد حیثیت کے مالک ہیں۔ ان کی غزلوں اور نظموں میں فکر انگیزی، کلاسیکی رچاو اور جدید احساس کی تازہ کاری ملتی ہے۔ سرور کی تنقید اور شاعری کی متعدد کتابیں شائع ہوئیں۔ کچھ کے نام یہ ہیں۔ ’نئے اور پرانے نظریے‘ ’تنقید کیاہے‘ ’ادب اور نظریہ‘ ’مسرت سے بصیرت تک‘ ’اقبال کا نظریہ اور شاعری‘ ’ذوق جنوں‘ (شاعری) ’خواب باقی ہیں‘(خودنوشت)۔ 

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

Register for free
بولیے