aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ماہنامہ "تجلی" میں ایک مستقل طنزیہ و فکاہیہ کالم "مسجد سے مے خانے تک" کے عنوان سے شائع ہوتا تھا۔ مضمون نگار کی حیثیت سے ملا ابن العرب مکی کا نام ہوتا تھا۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملا ابن العرب مکی کون بزرگ تھے؟ یہ عامر عثمانی (1920ء – 1975ء) کی ہی تصویر کا دوسرا رخ تھا۔ اس کالم کے تحت ملا ابن العرب مکی (عامر عثمانی) ہر مہینے "بادہ و ساغر" کے پردے میں "مشاہدہ حق" کی گفتگو کرتے تھے۔ مذہبی طبقے میں یا مذہب کے نام پر پائی جانے والی خرابیاں اور بدعنوانیاں خصوصیت کے ساتھ ان کی تنقیدوں کا نشانہ بنتی تھیں۔ اس کالم کا اچھوتا اور طنز و مزاح سے بھر پور اندازِ بیان ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ اس کالم کے دو ضخیم مجموعے "مسجد سے مے خانے تک" حصۂ اول و دوم، عامر عثمانی کی ہی زندگی میں شائع ہوگئے تھے، اور دونوں حصوں کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ کتاب کے مصنف کی جگہ ابن العرب مکی کا ہی نام درج ہے۔ خیال رہے کہ ماہنامہ "تجلی" کا اجراء 1949ء میں کیا گیا جو عامر عثمانی کی وفات تک یعنی 25سال تک مسلسل بلا کسی انقطاع کے شائع ہوتا رہا۔ کالم اتنا مقبول ہوا کہ اسی کو پڑھنے کے لیے لوگ "تجلی" کے خریدار بننے لگے اور قارئین میں روز افزوں اضافہ ہونے لگا۔ اس زمانے میں جو مقبولیت "مسجد سے میخانے تک" کالم کو حاصل رہی، وہ کسی دوسرے رسالے کے کالم کو نہیں حاصل ہوسکی۔ وہی کالم کتابی شکل میں آپ کے سامنے ہیں، آپ عامر عثمانی کے اسلوب سے ضرور لطف اندوز ہونا چاہئے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free