aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زیر نظر کتاب "مثنوی قلق"خواجہ ارشد علی خاں قلق لکھنوی کی مثنوی ہے۔قلق بحیثیت مثنوی نگار کافی مشہور ہیں،لکھنؤ کے اہم مثنوی نگاروں میں ان کا نام وقار کے ساتھ لیا جاتا ہے۔یہ وہی مثنوی ہے جو "طلسم الفت"کے نام سے عوام میں مشہور و معروف ہے۔یہ ان کی مایہ ناز مثنوی ہے جو لوگوں میں کافی مقبول ہوئی ۔یہ ایک ضخیم داستان ہے، اس مثنوی کا آغاز حمد، مناجات، اور نعت سے ہوتا ہے۔اس کے بعد واجد علی شاہ کی مدح کی گئی ہے،اور پھر اصل قصہ شروع ہوتاہے۔اس مثنوی کے قصہ کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔شہر عشق کے بادشاہ اور اس کا وزیر اولاد نہ ہونے کی وجہ سے غمگین رہتے تھے۔ایک مدت کے بعد دونوں کے گھر لڑکا پیدا ہوا۔شہزادہ کا نام جان جہاں اور وزیر زادہ کا نام ہمدم رکھا گیا، نجومیوں نے بتایا کہ شہزادہ اٹھارویں برس میں عشق میں مبتلا ہوگا۔یہ سن کر بادشاہ کو ملال ہوا مگر لاحول پڑھ کر فرمایا کہ خدا کے غیب کو کوئی نہیں جانتا۔بادشاہ فرزند کی خوشی میں سب کچھ بھول جاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ
قلقؔ۔ ان کا نام خواجہ اسد علی اور خطاب آفتاب الدولہ تھا خواجہ بہادر حسین فراقؔ کے فرزند خواجہ وزیر علی وزیرؔ لکھنوی کے شاگرد اور واجد علی شاہ اختر شاہ اودھ کے درباری شاعر اور مصاحب تھے۔ 1880 میں انتقال کیا ۔’’دیوان قلق‘‘ اور مثنوی ’’طلسم الفت‘‘ ان کی تصنیفات ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets