پنڈت دیا شنکر نسیمؔ 1811ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق پنڈتوں کے معزز اور تعلیم یافتہ خاندان سے تھا اس لیے ان کو بھی ادبیات سے بے حد دلچسپی تھی۔ ضروری تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ شاہی فوج میں کلرک ہوگئے تھے اور غالباً شعبۂ مالیات کا حساب کتاب رکھتے تھے۔ یہ غازی الدین حیدر اور نصیرالدین حیدر نوابین اودھ کا دور تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لکھنؤ اپنی آسودہ حالی اور تعیشات میں مست تھا۔ نسیمؔ نے اپنے ادبی ذوق کی تسکین خواجہ حیدر علی آتشؔ کے آگے زانوئے ادب تہہ کر کے حاصل کی۔ آتشؔ کا مرتبہ ان بزرگ اساتذہ میں نمایاں ہے جنہوں نے اردو زبان کی اصلاح، صفائی اور محاورہ بندی کا کام نہایت خوبی سے کیا اور اپنے اپنے اس کام میں شاگردوں کو شریک کرکے اصلاح زبان کے کام کےتسلسل کو جاری رکھا۔ ان کے کم و بیش تمام شاگردوں نے آگے چل کر ایک خاص طرز کلام میں نام حاصل کیا۔ پنڈت دیا شنکر نے بھی حسب رواج شروع میں غزلوں پر طبع آزمائی کی تھی۔ ان کی غزلوں کے کچھ بہترین اشعار درج ذیل ہیں۔
جب ہو چکی شراب تو میں مست مر گیا
شیشے کے خالی ہوتے ہی پیمانہ بھر گیا
گزرا جہاں سے میں تو کہا ہنس کے یار نے
قضیہ گیا فساد گیا درد سر گیا
لائے اس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
کوچہ جاناں کی ملتی تھی نہ راہ
بند آنکھیں کیں تو رستہ کھل گیا
بوئے گل کہتی ہے غنچہ سے نسیمؔ
بات نکلی منہ سے افسانہ چلا
لیکن یہ غزلوں کی زمین ان کی تخیئل کی جولانیوں کے لیے کافی نہ تھی۔ ان کی صلاحیتوں کا اصلی جوہر مثنوی میں کھلا۔ مثنوی ’’گلزار نسیم‘‘ نسیمؔ کی وہ عشقیہ مثنوی ہے جس نے انہیں شہرت دوام عطا کی اور یہی وہ مثنوی ہے جسے دبستان لکھنؤ کی نمائندگی کا شرف حاصل ہے۔ پنڈت برج نارائن چکبست فرماتے ہیں کہ ’’جواہر سخن کو پرکھنے والے سمجھ گئے کہ مثنوی کیا کہی ہے موتی پروئے ہیں‘‘۔ مثنوی میں جو داستان پیش کی گئی ہے وہ ان کی طبع زاد نہیں ہے۔ اس قصہ کو عزت اللہ بنگالی نے فارسی میں لکھا تھا۔ جان گل کرائسٹ کی فرمائش پر فورٹ ولیم کالج کے لئے نہال چند لاہوری نے اس قصہ کا اردو میں ترجمہ کیا اور پھر اس کو نسیمؔ نے مثنوی کی صورت میں نظم کیا۔
یہ داستان اردو کی دیگر رومانی مثنوی کی داستانوں کی بہ نسبت پییچدہ ہے۔ چوں کہ تمام قصہ فرضی، خیالی اور طلسماتی ہے اس لیے نسیمؔ نے الفاظ کو انتخاب، طرز بیان، رعایت لفظی اور دیگر صنائع و بدائع کا خوف خوف استعمال کیا ہے۔ جہاں تفصیل دی جاسکتی تھی وہاں اختصار سے کام لیا اور جہاں اشارات سے کام چل سکتا تھا وہاں داستان کو پھیلا دیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نسیمؔ کی یہ مثنوی ابتداء میں بہت طویل تھی جب آتشؔ کو بغرض اصلاح دکھائی گئی تو انہوں نے پہلا اصلاحی مشورہ یہ دیا کہ اس کو مختصر کیا جائے تاکہ پڑھنے والے بغیر دشواری کے بہ یک نشست پوری مثنوی پڑھ سکیں۔ چنانچہ نسیمؔ نے اس کو اتنا مختصر کیا کہ اب ایک لفظ بھی کم کرنے کی گنجائش نہیں رہی۔
مثنوی میں شہزادہ تاج الملوک کی پرستان میں ان مہمات کا ذکر ہے جہاں وہ گل بکاولی کی تلاش میں گیا تھا۔ کسی نے بتایا تھا کہ گل بکاولی مس کرنے سے اس کے نابینا باپ کی آنکھوں میں روشنی واپس آجائے گی۔ اس مہم میں وہ بکاولی (پری) کے عشق میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ بکاؤلی محو خواب تھی تب ہی ان نے پھول بھی اٹھا لیا اور اس سےانگشتری بھی بدل لی۔ جاگنے کے بعد بکاؤلی مرد کا بھیس بدل کر تاج الملوک کو تلاش کر لیتی ہے۔ بکاؤلی کی ماں رقیب کاکردار ادا کرتی ہے اور دونوں کو جدا کردیتی ہے۔ طلسماتی جنگلوں میں کئی معرکوں کے بعد یہ ہوتا ہے کہ وہ مختلف راستوں اور ترکیبوں سے وہ دونوں ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں اور بیاہ رچا لیتے ہیں۔ داستان یہاں ایک دوسرا موڑ لیتی ہے۔ راجہ اندر دربار میں بکاؤلی کو طلب کر کے سزا کے طور پر اس کا آدھا دھڑ پتھر کا بنا کے ایک منہ میں قید کردیتے ہیں۔ اس درمیان میں راجہ اندر کی بیٹی شہزادی چتراوت، تاج الملوک سے عشق کرے لگتی ہے اور یہ معلوم کر کے کہ وہ بکاؤلی کا عاشق ہے اور اس کی طرف مائل نہ ہوگا اس کی مدد کرنے کے لئے منہ کو ڈھا دیتی ہے۔ حالات کچھ یوں بنتے ہیں کہ بکاؤلی کو دوسری زندگی عطا کی جاتی ہے اور وہ سترہ برس کی پاداش کے بعد شہزادہ سے مل جاتی ہے۔ اس داستان کے اندر ایک اور داستان وزیر کے بیٹے بہرام اور حسن آرا کے عشق کی بھی ہے۔
اس پیچدہ پلاٹ کو نظم کرنے کے لیے نسیمؔ نے جس بحر کا انتخاب کیا اس کو ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھا جاسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ نسیمؔ نے یہ بحر دانستہ طور پر منتخب کی ہو کہ لوگ دھیرے دھیرے الفاظ پر غور کر کے پڑھیں اور اس کے محاسن لفظی کا پورا لطف اٹھائیں۔
گلزار نسیمؔ میں خاص لکھنؤی ماحول کی عکاسی کی گئی ہے۔ نوابی ماحول میں عورتوں کو مردوںپر برتری حاصل تھی اسی وجہ سے بہت سے نسوانی کردار داستان پر حاوی ہیں۔ لکھنؤ کے عیش پرستانہ ماحول نے کھلی اجازت دے رکھی تھی کہ عریانیت کا بیان کرنا کوئی معیوب بات نہیں ہے اس لیے نسیمؔ نے بھی ایسا کوئی موقع نہیں چھوڑا ہے جس میں لطف لے لے کر عریاں مناظر بیان نہ کئے ہوں۔ مختصر نویسی اس مثنوی کی صفت ہے لیکن جہاں رازونیاز کی باتوں کا ذکر ہے اور عریاں نگاری کا موقع میسر آ گیا ہے وہاں شاعر نے اس صفت کو نظر انداز کردیا ہے۔ اس کے باوجود رعایت لفظی اور انتخاب الفاظ میں اس مثنوی کا کوئی جواب نہیں۔ اردو میں مثنوی کی ساخت یوں رکھی گئی ہے کہ پہلے حمد پھر نعت رسولؐ اور پھر مناقب آل محمدؐ اور اس کے بعد مناسب گریز کر کے اصل قصہ شروع کیا جاتا ہے۔ ’’گلزار نسیمؔ‘‘ میں بھی اس ساخت کو حسب روایت برقرار رکھا گیا ہے۔ تحسین کلام کے طور پر یہ شعر پیش ہے جس سے مثنوی کا آغاز ہوتا ہے۔
ہر شاخ میں ہے شگوفہ کاری
ثمرہ ہے قلم کا حمد باری
اس بیت میں شاخ ’’شگوفہ‘‘ ثمر قلم کے الفاظ ایک دوسرے کی رعایت سے استعمال ہوئے ہیں(ضلع کے لفظ ہیں) ایک اور رعایت یہ ہے کہ مثنوی کے نام میں چوں کہ ’’گلزار‘‘ کا لفظ ہے اس لیے پہلے ہی شعر میں گلزار سے متعلق چیزوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک اور صفت جو اس شعر میں مخفی ہے وہ یہ ہے کہ پنڈت دیا شنکر نے اپنے ذاتی عقائد کی بنا پر ’’ہر‘‘ کے لفظ سے بات شروع کی ہے۔ پھر اس تصور کے ساتھ’’باری‘‘ کا لفظ لائے ہیں جو ضلع کا لفظ ہے۔ ہر کے ساتھ ذہن ہریالی اور ہرے پن کی طرف بھی جاتا ہے جو گلزار کی صفات میں ہے۔ اس ایک شعر میں ان تمام خصوصیات کو جمع کردینا نسیمؔ کی قدرت کلام کو ظاہر کرتا ہے۔ ایسی ہی بیسوں مثالیں اس مثنوی میں موجود ہیں۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ صنعت ’’مراعاۃ النظیر‘‘ رعایات لفظی اور ضلع کے الفاظ (معنی سے تعلق رکھنے والے الفاظ) کا استعمال جیسا اس مثنوی میں کیا گیا ہے کسی دوسری میں نہیں ملتا۔
ذیل میں ہم گلزار نسیمؔ کے کچھ اشعار پیش کر رہے ہیں جو درمیان داستان سے لئے گئے ہیں لیکن معانی اور مطالب کے لحاظ سے سب کی دلچسپی کا باعث ہوں گے۔
اک مرغ ہوا اسیر صیاد
دانا تھا وہ طائر چمن زاد
بولا جب اس کے باندھے بازو
کھلتا نہیں کس طمع پہ ہے تو
بیجا تو ٹکے کا جانور ہوں
گر ذبح کیا تو مست پر ہوں
پنڈت دیا شنکر نسیمؔ نے صرف 32برس کی عمر پائی اور اس گلزار جہاں سے سدھاکر 1843ء میں بیکنٹھ کے باسی ہوگئے اور اپنے پیچھے لفظی حسن کی کاریگری کا ایک انمول تحفہ اردو کے لئے چھوڑ گئے۔
نسیمؔ کی ایک ہی آؤٹ لانز پر مشتمل قلمی تصویر دستیاب ہے۔ اسی خاکے کو ابھارکر میں نے اس میں رنگ بھرنے ہیں۔ اس کا لباس خاص لکھنوی پنڈتوں کا لباس ہے جو نیچی چھت کی دوپلی ٹوپی اور انگرکھے سے پہچانا جاتا ہے۔ اس تصویر کا پس منظر ایک گلزار ہے جس میں نسیمؔ شاید یہ فرما رہے ہوں۔
تصویر نسیمؔ کی بنائی
محسن کو بہت بہت بدھائی
جس قوم کا حوصلہ جواں ہے
وہ قدر شناس رفتگاں ہے