aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
مثنوی سحر البیان کو جو شہرت حاصل ہے وہ کسی اور مثنوی کو نہیں ۔اس کی زبان اور انداز بیان آج تک اردو مثنوی نگاری کے لیے ایک قابل عمل نمونہ ہے ۔اس مثنوی نے عہد اور مقام کی تمام حدیں توڑ کر سب پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں ،سادہ بیانی، جذبات نگاری اور جزئیات کی عکاسی اس مثنوی کی اہم خصوصیات ہیں۔ یہ میر حسن اور اردو ادب کی معرکۃ الآرا مثنوی ہے۔ مثنوی لکھنو کی تہذیب و ثقافت کی سانجھی وراثت سے مملو ہے۔ اس کا ہر شعر اہل مذاق کے دلوں کو لبھانے کے لئے موہنی منتر ہے اور اس کی ہر داستان سحر سامری کا ایک دفتر۔ زیر نظرکتاب "مثنوی سحر البیان: نیا عکس نیا آئینہ" مہدی نظمی کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔اس کتاب میں انھوں نے فن مثنوی، میر حسن اور اس مثنوی کے نمایاں اور اہم پہلوؤں پر تحقیقی مواد پیش کیا ہے۔