aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
واجد علی شاہ کی یہ مثنوی "حُزنِ اختر" کافی اہمیت رکھتی ہے۔ جیسا کہ اہلِ نظر جانتے ہیں واجد علی شاہ کا تخلص اخترؔ تھا اور اس مثنوی میں انھوں نے اپنی زندگی کے ان مصائب و آلام کا نقشہ پیش کیا ہے جن سے وہ تخت و تاج سے معزولی کے بعد لکھنؤ اور کلکتہ میں دوچار ہوئے تھے۔ گویا یہ مثنوی نواب واجد علی شاہ اختر کی منظوم آپ بیتی ہے۔ امجد علی خان نے نئی ترتیب و تقدیم کے ساتھ کتاب کے شروع میں واجد علی شاہ کا مجمل خاکہ بھی پیش کیا ہے، نیز کتاب کے آخر میں مشکل الفاظ کی فرہنگ کے علاوہ فہرست ماحذ بھی موجود ہے۔
در و دیوار پہ حسرت سے نظر کرتے ہیں
خوش رہو اہل وطن ہم تو سفر کرتے ہیں
واجد علی کو معزولی کے بعد 12 لاکھ روپے سالانہ وظیفہ ملتا تھا۔ انہوں نے مٹیا برج کو چھوٹا لکھنؤ بنانے کی کوشش کی اور لکھنؤ کی طرز کی عمارتیں بنوائیں۔ امام باڑہ سبطین، رئیس منزل، تمام باغات اور عمارتیں جن سے لکھنؤ کی یادیں وابستہ تھیں، مٹیا برج میں نمودار ہوئیں، مٹیا برج میں ان کی راتیں مشاعروں، مجلسوں اور محفلوں کے لئے وقف تھیں۔ واجد علی شاہ کے آخری پانچ برسوں کی کمائی ان کی مثنوی ثبات القلوب ہے جس میں ان کی صلاحیتیں کھل کر سامنے آئی ہیں۔ واجد علی بنیادی طور پر مثنوی کے شاعر تھے۔ ان کا دوسرا کام کمیت اور کیفیت دونوں لحاظ سے مثنوی کے مقابلہ میں کمتر ہے۔
اودھ کے آخری تاجدار واجد علی شاہ اختر ایک پیچیدہ شخصیت کے مالک تھےاور شخصیت کی اسی پیچیدگی نے ان کو متنازعہ بنا ئے رکھا ہے۔ اگر ایک طرف انگریزوں نے اودھ پر قبضہ کرنے کی غرض سےانہیں ایک نا اہل اور عیاش حکمراں قرار دیتے ہوئے ان کی کردار کشی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تو دوسری طرف ان کے طرفدار بھی ان کی شخصی کمزوریوں پر پردہ ڈالتے ہوئے ان کی شخصیت کا وہی رخ دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کو پسند ہے۔ واجد علی شاہ کے بارے میں صرف ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہےاور وہ یہ کہ اگر وہ بادشاہ نہ ہوتے تب بھی تاریخ ان کو ادب اور فنون لطیفہ کی سرپرستی اور ان میں ان کی عملی شمولیت کے لئے یاد رکھتی جبکہ دوسری طرف اگر وہ ادیب و فنکار نہ ہو کر صرف بادشاہ ہوتے تو تاریخ کے صفحات میں ان کے لئے صرف چند سطروں سے زیادہ جگہ نہ نکل پاتی۔ واجد علی شاہ کا نام مرزا محمد واجد علی اور تخلص اختر تھا جسے وہ اپنی ٹھمریوں وغیرہ میں "اختر پیا" کے طور پر بھی استعمال کرتے تھے۔ وہ 30 جولائی 1822ء کو پیدا ہوئے۔ اس وقت غازی الدین اودھ کے بادشاہ تھے۔ واجد علی کی تعلیم و تربیت کا خاص انتظام کیا گیا۔ ان کے استاد و اتالیق امین الدولہ امداد حسن تھے جن کے نام پر لکھنؤ کا خاص بازار امین آباد آج بھی موجود ہے۔ تحصیل علم کے زمانہ میں واجد علی نے مختلف علوم میں مہارت حاصل کی اور ذاتی مطالعہ سے اسے بڑھایا۔ ان کی شعر گوئی کی ابتدا 18 سال کی عمر میں ہو گئی تھی اور انہوں نے تین مثنویاں اور پہلا دیوان اپنی ولی عہدی کے زمانہ میں ہی مرتب کر لیا تھا۔ والد امجد علی کی تخت نشینی کے بعد 1842 میں وہ ولی عہد نامزد کئے گئے تھے حالانکہ ان کے ایک بڑے بھائی میر مصطفی حیدر موجود تھے۔ واجد علی کی ادبی اور ثقافتی زندگی کا آغاز اسی وقت سے ہو گیا تھا جب ان کے بادشاہ بننے کا بظاہر کوئی امکان نہیں تھا۔ بادشاہ بننے سے بہت پہلے وہ ادیب اور موسیقار بن چکے تھے۔ حسن پرستی ان کی سرشت میں تھی اور رقص و موسیقی سے ان کو فطری مناسبت تھی۔ نازنینان پری چہرہ ان کی کمزوری تھیں اور مزاج میں جدّت پسندی تھی۔ جو ان کی نظم و نثر، ڈراموں اور تعمیرات میں نمایاں ہے۔ واجد علی کی شادی 15 سال کی ہی عمر میں نواب یوسف علی خان بہادر صمصام جنگ کی بیٹی سے ہو گئی تھی۔ ولی عہدی کے زمانہ میں شاہی قلمدان کی خدمت ان کے سپرد تھی اور ان کا کام داد خواہوں کی عرضیاں پڑھنا، شاہی احکام نافذ کرنا، شہر اور دوسرے مقامات کی خبروں پر نظر رکھنا اور غلؔہ و دیگر اجناس کے نرخ معلوم کرنا تھا۔ باقی وقت وہ نجی مشاغل میں گزارتے تھے۔ ولی عہدی اور اس سے پہلے کا دور ان کی خانگی زندگی کا دور تھا جس کی زیادہ تفصیلات نہیں ملتیں۔ انہوں نے بہرحال خود کو سیاست سے دور رکھا تھا۔ 1847 میں والد کے انتقال کے بعد وہ بادشاہ بنے اور ابو المظفر ناصرالدین سکندر جاہ بادشاہ عادل قیصر زماں سلطان عالم کا لقب اختیار کیا۔ بادشاہ کی حیثیت سے واجد علی شاہ نے عدل و انصاف سے کام لیا اور کوئی قدم ایسا نہیں اٹھایا جس سے رعایا میں کوئی خوف و دہشت پھیلے۔ انہوں نے عام دستور کے برعکس اپنے والد کے زمانہ کے بیشتر عہدیداروں کو ان کے عہدوں پر قائم رکھا بلکہ ان کی تنخواہیں بڑھائیں اور مراعات میں اضافہ کیا اور رعایا سے قریب ہونے کی کوشش کی۔ سلطنت کے دو ہی سال ہوئے تھے کہ وہ سخت بیمار ہو گئے اور ان کے شفایاب ہونے میں دس ماہ لگ گئے۔ معالجین نے ان کو تاکید کی کہ وہ انتظام سلطنت کی مصروفیات ترک کر کے اپنا زیادہ وقت سیر و تفریح میں گزاریں۔ اس طرح وہ امور سلطنت اپنی نئی بیوی روشن آرا بیگم کے والد نواب علی نقی کو سونپ کرکتب بینی، شاعری،تصنیف و تالیف اور فنون کی سرپرستی میں مشغول ہو گئے۔ اور اتنے مشغول ہوئے کہ وقت نے ان کو وہ بنا دیا جس کے لیے وہ مشہور یا بدنام ہیں۔ ان کے ہمعصر عبد الحلیم شرر لکھتے ہیں، "واجد علی کا علمی مذاق نہایت پاکیزہ اور اعلیٰ درجہ کا تھا دراصل ان کے دو ہی ذوق تھے۔ ایک ادب و شاعری کا اور دوسرا موسیقی کا۔ عربی کے عالم نہیں تھے مگر فارسی میں دم بھر میں دو دو چار چار بند کی نثریں لکھ ڈالتے۔ یہی حالت نظم کی تھی۔ طبیعت میں اس قدر روانی تھی کہ سیکڑوں مرثئے اور سلام کہہ ڈالے اور اتنی کتابیں نثر و نظم میں تحریر کر ڈالیں کہ ان کا شمار بھی آج کسی کو نہ ہو گا۔" شرر کا یہ بیان اپنی جگہ، لیکن تاریخی واقعات گواہ ہیں کہ وہ خوب صورت عورتوں کے دلدادہ تھے۔
واجد علی شاہ پر الزام ہے کہ انہوں نے ساری توجہ رہس بازی، پری خانہ محلات اور رقص و سرود کی محفلوں پر مرکوز کر دی تھی لیکن ان کے پاس کرنے کو تھا ہی کیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے پوری طرح ان کو باندھ رکھا تھا۔ وہ بس برائے نام بادشاہ تھے۔ ان کو چھوٹی سے چھوٹی بات کے لئے بی ریزیڈنٹ کی منظوری حاصل کرنی پڑتی تھی۔ لوگوں کی نظر میں ریزیڈنٹ کی خوشنودی بادشاہ کی خوشنودی سے بڑھ کر تھی۔ سلطنت کے سیاسی اور اقتصادی حالات انگریزوں کی طرف سے جان بوجھ کر خراب کئے جا رہے تھے اور واجد علی پر الزام تھا کہ ان کو گویّوں اور خواجہ سراؤں کی صحبت پسند ہے۔ امن و قانون کی حالت ابتر تھی۔ انگریز صرف وقت کے منتظر تھے۔ اور اختر پیا کی سرگرمیوں نے ریزیڈنٹ کو موقع دے دیا کہ وہ بد انتظامی کا الزام ان پر تھوپ کر انہیں معزول کر دے۔ اس طرح 1856 میں واجد علی شاہ کو معزول کر دیا گیا وہ کسی مزاحمت یا خون خرابہ کے بغیر حکومت سے دست بردار ہو گئے۔ اور اپنی زندگی کے آخری 31 سال مٹیا برج میں گزارے۔ 1887 ء میں ان کی موت ہوئی۔ معزولی کے بعد واجد علی شاہ ایک بجھے ہوئے انسان تھے۔ لیکن زندگی کا یہ دور تخلیقی اعتبار سے ان کے لئے نعمت ثابت ہوا۔ وہ اس زمانہ میں زیادہ تر وقت تصنیف و تالیف میں صرف کرتے۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر چھوٹی بڑی تقریباً سو کتابیں لکھیں جن میں عروض جیسے خشک علم پر بھی ان کے دو رسالے موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اکسٹھ نئی بحریں ایجاد کیں، اور ان کے نام رکھے۔ لکھنؤ کے زمانہ میں روایتی منظوم کلام کے ساتھ ساتھ انہوں نے سیکڑوں گیت بنائے جو گھر گھر گائے جاتے تھے۔ کلاسیکی موسیقی کو آسان اور عام پسند بنانا ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے اور لکھنوی ٹھمری اور بھیرویں کی مقبولیت ان ہی کی مرہون منت ہے۔ ان کی بھیرویں ٹھمری "بابل مورا نیہر چھوتو ہی جائے" ان گنت گلوکاروں نے گایا ہے لیکن کندن لال سہگل نے اس میں جو درد بھرا ہے اس کی کوئی مثال نہیں۔ ناٹک کے فن پر ان کا احسان موسیقی سے بھی زیادہ ہے۔ انہوں نے اس فن کو جو ملک میں بالکل ذلیل ہو گیا تھا، گلیوں سے اٹھا کر محلوں تک پہنچایا۔ ان کے زمانہ تک اردو ڈرامے کا کوئی وجود نہیں تھا۔ انہوں نے ولی عہدی کے زمانہ میں ہی ایک ناٹک رادھا-کنہیّا لکھا تھا جسے اردو کا پہلا ڈرامہ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی مثنویوں "افسانہ عشق"، "دریائے تعشق" اور "بحر الفت" کے رہس تیار کئے اور ان کو دیکھنے دکھانے کے لئے قیصر باغ،،رہس منزل اور دوسری عمارتیں تعمیر کرائیں۔ واجد علی کی علم دوستی کا پتہ اس بات سے چلتا ہے کہ انہوں نے شاہی کتب خانہ کی فہرست بنوائی اور اس میں اضافہ کے لئے اشتہار دے دے کر نئی کتابیں منہ مانگے داموں میں خریدیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets