aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
مثنوی "سحرالبیان" میرحسن کالافانی کارنامہ ہے،یہ میرحسن کی لکھی گئی 12 مثنویوں میں سے ایک ہے جسے قصہ بدرمنیر و شہزادہ بے نظیر وغیرہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے،یہ ایک عشقیہ مثنوی ہےجس میں شہزادہ بے نظیر اور شہزادی بدر منیر کے عشق کی داستان بیان کی گئی ہے،اس مثنوی کے ذریعہ میر حسن نے اپنےعہد کی تصویر کشی اور معاشرت کی بھرپور عکاسی کی ہے،اس زمانے کا رہن سہن، رسم و رواج ہر چیز اصل کے مطابق دکھائی گئی ہے۔ اسی طرح منظرکشی بھی ہر لحاظ سے مکمل ہے،مثنوی میں جن، دیو اور پریاں بھی نظر آتی ہیں،متروک الفاظ ہونے کے با وجود مثنوی کی زبان سادہ،سلیس اور رواں ہے، میر حسن کو اس مثنوی پر ناز تھا۔ مقدمہ میں مصنف کے حالات بھی شامل ہیں۔
اردو ادب پر جتنا احسان میر حسن کے گھرانے کا ہے اتنا کسی کا نہیں۔ میر حسن نے خود غزل کو چھوڑ کر مثنوی کو اپنایا اور اسے درجہ کمال تک پہنچا دیا جبکہ ان کے پوتے میر ببر علی انیس نے مرثیہ میں وہ نام کمایا کہ اس صنف میں کوئی ان کا ثانی نہیں۔ ان دونوں کے بغیر اردو شاعری غزل تک محدود ہو کر رہ جاتی۔ کوئی بلند پایہ ممدوح نہ ہونے کے باوجود قصیدہ کو سودا جس درجہ تک لے گئے تھے اس میں مزید کسی وسعت کی گنجائش نہیں تھی۔ میر حسن اور انیس نے اردو شاعری کو،غزل کی روش عام سے ہٹ کر جس طرح مالامال کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
میر حسن کے جد اعلیٰ عہد شاہجہانی کے اواخر میں ہرات سے آ کر دہلی میں بس گئے تھے۔ یہیں 1727 ء میں میر حسن پیدا ہوئے۔ ان کے والد میر ضاحک شاعر تھے جن کی طبیعت ہزل اور ہجو کی طرف مائل تھی۔ سودا سے ان کی خوب نوک جھونک چلتی تھی۔ میر حسن نے ابتدائی تعلیم گھرپر ہی والد سے حاصل کی۔ شعر و شاعری کا شوق لڑکپن سے تھا وہ خواجہ میر درد کی صحبت میں رہنے لگے اور وہی شاعری میں ان کے پہلے استاد تھے۔ جس زمانہ میں میر حسن نے جوانی میں قدم رکھا وہ دہلی اور دہلی والوں کے لئے سخت ابتلاء کا زمانہ تھا۔ معاشی حالات ابتر تھے اور ہر طرف لوٹ مار مچی ہوئی تھی۔ اکثر شرفاء جان و مال کی حفاظت کے لئے دہلی چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ سودا، میر تقی میر، جرأت، سوز سب دہلی چھوڑ کر اودھ کا رخ کر چکے تھے۔ میر ضاحک نے بھی اہل و عیال کے ساتھ دہلی کو خیرباد کہا۔ میر حسن کو دہلی چھوڑنے کا بہت غم ہوا۔ انہیں دہلی سے تو محبت تھی ہی ساتھ ہی کسی دہلی والی کو دل بھی دے بیٹھے تھے۔ "ہوا آوارہ ہندستان جب سے*قضا پورب میں لائی مجھ کو تب سے/لگا تھا ایک بت سے واں مرا دل*ہوئی اس سے جدائی سخت مشکل/مری آنکھوں میں وہ صورت کھڑی تھی*پیالی میں وہ چنی سی جڑی تھی"۔ میر حسن خاصے رنگین مزاج اور حسن پرست تھے۔ بہر حال سفر میں میواتی حسیناؤں کے حسن اور ناز و ادا اور مکن پور میں شاہ مدار کی چھڑیوں کے میلے کی رنگینیوں نے کسی حد تک ان کا غم غلط کیا۔ ان کی مثنوی گلزار ارم اسی سفر کی داستان ہے۔ فیض آباد جاتے ہوئے وہ لکھنؤ میں ٹھہرے اس وقت لکھنؤ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جو ان کو بالکل پسند نہیں آیا اور اس کی ہجو کہہ ڈالی۔ "جب آیا میں دیار لکھنؤ میں*نہ دیکھا کچھ بہار لکھنؤ میں/ہر ایک کوچہ یہاں تک تنگ تر ہے *ہوا کا بھی وہاں مشکل گزر ہے/سوائے تودۂ خاک اور پانی*یہاں دیکھی ہر اک شئے کی گرانی/زبس کوفہ سے یہ شہر ہم عدد ہے*اگر شیعہ کہیں نیک اس کوبد ہے"۔ لکھنؤ کی یہ ہجو ان کو بہت مہنگی پڑی۔ یہ آصف الدولہ کے خوابوں کا لکھنؤ تھا جسے وہ رشک شاہجہاں آباد بنانے پر تُلے تھے۔ اس لکھنؤ کو کوفہ کہا جانا (کوفہ اور لکھنؤ کے عدد بحساب ابجد 111برابر ہیں) اور ساتھ ہی یہ کہنا کہ کسی شیعہ کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اس شہر کو اچھا کہے آصف الدولہ کے دل میں چبھ گیا۔ بہرحال میر حسن دہلی سے فیض آباد پہنچے اور پہلے آصف الدولہ کے ماموں سالار جنگ اور پھران کے بیٹے سردار جنگ مرزا نوازش علی خان کے ملازم ہو گئے۔ 1770ء میں جب آصف الدولہ نے لکھنؤ کو پایۂ تخت بنا لیا تو سالار جنگ بھی اپنے متعلقین کے ساتھ لکھنؤ منتقل ہو گئے جن کے ساتھ میر حسن کو بھی جانا پڑا۔ فیض آباد اس زمانہ میں حسینان پری پیکر کی آماجگاہ تھا اور یہاں میر حسن کی جمالیاتی حس کی تسکین کے بہت سامان موجود تھے بلکہ وہ کسی سے دل بھی لگا بیٹھے تھے۔ وہاں بھی میں نے اک محبوب پایا*نہایت دل کو وہ مرغوب پایا/کہوں کیا اس کے اوصاف حمیدہ*نہایت دلفریب اور شوخ دیدہ"۔ دوسری طرف لکھنو میں آصف الدولہ کی ناراضگی کی وجہ سے ان پر عرصۂ حیات تنگ تھا۔ انہوں نے مثنوی سحرالبیان نواب کو راضی کرنے کے لئے ہی لکھی تھی۔ جس کے ساتھ ایک قصیدہ بھی تھا اور نواب سے حضرت علی اور آل رسول کا واسطہ دے کر معافی طلب کی گئی تھی۔ "سو میں ایک کہانی بنا کر نئی*دُر فکر سے گوندھ لڑیاں کئی/لے آیا ہوں خدمت میں بہرنیاز*یہ امید ہے پھر کہ ہوں سرفراز/مرا عذر تقصیر ہووے قبول*بحق علی و بہ آل رسول"۔ 1784 میں یہ مثنوی مکمل ہوئی تو نواب قاسم علی خاں بہادر نے کہا کہ مجھے یہ مثنوی دو کہ میں اسے تمہاری طرف سے نواب کے حضور میں لے جاؤں لیکن میر حسن نے ان کا اعتبار نہ کیا اور ان کو بھی ناراض کر بیٹھے پھر جب کسی تقریب سے ان کی رسائی دربار میں ہوئی تو نواب قاسم نے انتقاماً میر حسن کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ میر حسن نے مثنوی کے ساتھ ایک قصیدہ بھی پیش کیا تھا جس میں نواب کی سخاوت کے ضمن میں اک شعر یہ تھا۔ "سخاوت یہ ادنیٰ سی اک اس کی ہے* دوشالے دئے ایک دن سات سے"قاسم خان بول پڑے " حضور تو ہزارہا دوشالے آن واحد میں بخش دیتے ہیں۔ شاعری میں مبالغہ ہوتا ہے یہاں تو بیان واقعی میں بھی کمی ہے" اس کے بعد نواب کا دل مثنوی سننے سے اچاٹ ہو گیا اور میر حسن کو اپنا استعمال شدہ ایک دوشالہ انعام میں دے کر رخصت کر دیا۔ اس واقعہ کے دیڑھ دو سال بعد 1785ء میں میر حسن کا انتقال ہو گیا۔
میر حسن کو حاتم دوراں آصف الدولہ کے دربار سے کچھ ملا ہو یا نہ ملا ہو ان کی مثنوی کی مقبولیت آصف الدولہ کی ناقدری کے منہ پر طمانچہ بن گئی۔ محمد حسین آزاد کے الفاظ میں۔ ’’زمانے نے اس کی سحر بیانی پر تمام شعراء اور تذکرہ نویسوں سے محض شہادت لکھوایا۔ اس کی صفائی بیان، لطف محاورہ شوخی مضمون اور طرز ادا کی نزاکت اور جواب و سوال کی نوک جھونک حد توصیف سے باہر ہے۔ زبان چٹخارے بھرتی ہے اور نہیں کہہ سکتی کہ یہ کون سا میوہ ہے۔ جگت گرو مرزا سودا اور شاعروں کے سرتاج میر تقی میر نے بھی کئی مثنویاں لکھیں مگر فصاحت کے کتب خانہ کی الماری پر جگہ نہ پائی۔ میر حسن نے اسے لکھا اور ایسی صاف زبان، فصیح محاورے اور میٹھی گفتگو میں اور اس کیفیت کے ساتھ ادا کیا کہ کہ اصل واقعہ کا نقشہ آنکھوں میں کھنچ گیا۔ اس نے خواص اہل سخن کی تعریف پر قناعت نہ کی بلکہ عوام جو حرف بھی نہیں پہچانتےوظیفوں کی طرح حفظ کرنے لگے۔‘‘
میر حسن نے سحرالبیان، گلزار ارم اور رموز العارفین کے علاوہ کئی دوسری مثنویاں بھی لکھیں۔ ان کی اک مثنوی خوان نعمت آصف الدولہ کے دسترخوان پر چنے جانے والے کھانوں کے بارے میں ہے۔ رموز العارفین اپنے وقت میں خاصی مقبول تھی جس میں عارفانہ اور مصلحانہ مضامین نظم ہوئے ہیں۔ لیکن جو مقبولیت ان کی آخری مثنوی سحرالبیان کو ملی ویسی کسی مثنوی کو نہیں ملی۔ اس میں شک نہیں سحرالبیان میں میر حسن نے محاکات اور جزئیات نگاری کو درجہ کمال تک پہنچا دیا ہے۔ یہی بات ان کے پوتے میر انیس کو ورثہ میں ملی جنہوں نے مرثیہ کے میدان میں اس سے کام لیا۔ میر حسن کے چار بیٹے تھے اور سبھی شاعر تھے جن میں انیس کے والد میر مستحسن خلیق نے بہت اچھے مرثئے لکھے لیکن بیٹے کی شہرت اور مقبولیت نے انھیں پس پشت ڈال دیا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets