aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ولی دکنی سے پہلے دکنی ادب میں بڑے بڑے شعرا نے اپنے کلام سے دکنی اردو شعر و ادب کو اعتبار بخشا ،جن میں وجہی،غواصی،نصرتی ،رستمی، وغیرہ شامل ہیں۔ جو اپنے اپنے فن میں ماہر تھے۔بے شک اس قدیم دور میں دکنی ادب میں زیادہ تر مثنویاں لکھی گئی۔ جن کا موضوع مذہبی، اصلاحی ،اور حسن و عشق ہی رہا۔لیکن یہ مثنویاں دکنی ادب میں اپنی فنی او رموضوعاتی محاسن کی بنا پر بے حد اہم مقام رکھتی ہیں۔ان ہی مثنویوں میں غواصی کی مشہور مثنوی" سیف الملوک و بدیع الجمال" بھی ایک ہے۔ غواصی قلی قطب شاہ کے عہد کا ایک کہنہ مشق شاعر تھا ۔جس نے اسی کے عہد میں اپنی یہ مشہور مثنوی "سیف الملوک و بدیع الجمال" لکھنے کاآغاز کیا، جسے سلطان عبد اللہ کےدور میں ختم کیا۔ یہ مثنوی دراصل فارسی کی مثنوی کاترجمہ ہے۔جس میں دو ہزار اشعار ہیں۔یہ ایک عشقیہ مثنوی ہے جس میں سیف الملوک اور بدیع الجمال کی عشق کی داستان بیان کی گئی ہے۔ غواصی کا انداز بیان سادہ اور تصنع سےپاک ہے ۔مبالغہ آمیز تخیل بہت کم ہے۔مثنوی میں استعمال کیے گئے اکثر الفاظ اور محاورے اب متروک ہوچکے ہیں۔فارسی اور عربی الفاظ کے ساتھ کہیں کہیں سنسکرت او رہندی کے الفاظ بھی ملتے ہیں۔پیش نظر کتاب میں میر سعادت علی رضوی نے غواصی کے مختصر حالات زندگی کے ساتھ اس کی مثنوی " سیف الملوک و بدیع الجمال "کافنی و موضوعاتی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free