aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"بانگ درا" علامہ اقبال کا شعری مجموعہ ہے۔ جسے ایک خوبصورت گلدستہ کہا جا سکتا ہے ۔جس میں سیکڑوں قسم کے رنگ برنگے پھولوں کی خوشبو اور ان کی رعنائی جلوہ افروز ہے۔ اس مجموعہ میں جہاں ایک طرف حب الوطنی سے لبریز ترانے شامل ہیں جن میں سارے جہاں سے اچھا اور ہمالہ جیسی نظمیں بطور خاص دیکھی جا سکتی ہیں ،وہیں بچوں کی نفسیات کے اعتبار سے دعائیں اور دیگر نظمیں جو مکالمہ اور مناظرہ کی شکل میں لکھی گئی ہیں شامل ہیں ۔جیسے' لب پے آتی ہے دعا بن کے تمنا میری' اور' ایک مکڑ اور مکھی'، ایک گائے اور بکری ایک پہاڑ اور گلہری وغیرہ۔ اس کے علاوہ شکوہ اور جواب شکوہ جیسی لازوال مسدس بھی اسی مجموعہ کلام میں شامل ہے اور نیا شوالہ جیسی نظمیں بھی شامل ہیں، کچھ نامور حضرات کی یاد میں بھی نظمیں ہیں اور علامہ کی غزلیات کا بہت ہی خوبصورت اجتماع ہے اگرچہ علامہ کو ان کی نظموں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ علامہ کی شاعری ایک خوبصورت ہدیہ ہے ہم اہل مشرق کے لئے، علامہ کو آج بھی اس آن با ن کے ساتھ پڑھا جاتا ہے اور علامہ کی شاعری ان لوگوں میں شمار ہے جن پر بہت زیادہ لوگوں نے لکھا۔ زیر نظر کتاب بانگ درا کی شرح ہے جس کو غلام رسول مہر نے انجام دیا ہے۔
مولانا غلام رسول مہر 4؍ اپریل 1895ء کو پھول پور میں پیدا ہوئے۔ یہ جالندھر سے قریب ایک گاؤں ہے۔ ابتدائی تعلیم یہیں ہوئی۔ پھر جالندھر مشن ہائی اسکول سے دسویں درجے کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد لاہور آگئے اور وہاں سے بی اے کی ڈگری لی۔ بعدہٗ وہ مولانا آزاد کے اخبار ’’الہلال‘‘ سے دلچسپی لینے لگے تھے۔ یہ رسالہ ان کے مطالعے میں مسلسل رہتا۔ اسی زمانے میں شعرگوئی کی طرف بھی مائل ہوئے۔ ایک وقت وہ بھی آیا کہ وہ مولانا بوالکلام آزاد سے بے حد متاثر ہوئے اور ان کی بنائی ہوئی تنظیم ’’حزب اللہ‘‘ کے رکن ہوگئے۔ اس کے بعد 1915ء میں حیدرآباد آگئے اور پائگاہ وقارالعمرا میں انسپکٹر تعلیمات ہوگئے۔ پھر انہوں نے ایک اخبار ’’سلطنت‘‘ جاری کیا۔ جب مولانا ظفر علی خاں نے اخبار ’’زمیندار‘‘ جاری کیا تو غلام رسول مہر بھی کسی نہ کسی نہج سے قریب ہوگئے۔ پھر وہ حیدرآباد سے واپس ہوئے تو خلافت تحریک کی سرگرمیوں میں شامل ہوگئے۔ مالک رام ان کے احوال و آثار پر نظر ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:۔
’’مہر نے یورپ مغربی ایشا کے بیشتر ممالک کا سفر کئے تھے اور وہاں کے کئی اکابر سے ان کے ذاتی تعلقات تھے۔ ان ملکوں کے اندرونی اور بیرونی معاملات پر ان کی گہری نظر تھی جو ایک روزانہ اخبار کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ان کے لئے بہت مفید ثابت ہوئی۔ 1947ء میں آزادی آئی، ملک تقسیم ہوگیا۔ ایک کی جگہ دو ملک وجود میں آئے۔ مہر و سالک نے دیکھا کہ تبدیل شدہ حالات صحافت کے لیے سازگار نہیں۔ اگر ہم چاہیں کہ اپنی آزادی رائے بھی قائم رکھیں اور حکومت بھی ہم سے خوش رہے تو یہ ناممکن ہے چونکہ آزادی ضمیر ان کے نزدیک خوشنودی حکومت سے عزیز تر تھی۔ انہوں نے ’’انقلاب‘‘ کی قربانی دینے کا فیصلہ کرلیا۔ چنانچہ 10؍ اکتوبر 1949ء کو ’’انقلاب‘‘ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔ ایک کامیاب، بااثر و رسوخ، نفع مند اخبار کو اصول کی خاطر بند کردینے کی ایسی اور مثال شاید ہی کہیں مل سکے! اس کے بعد مہر صاحب نے براہ راست سیاست سے بہت کم تعلق رکھا۔‘‘
لیکن اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ صحافت سے الگ ان کی ایک حیثیت ادیب کی بھی ہے۔ خصوصاً غالب اور اقبال کے حوالے سے ان کی ادبی حیثیت تسلیم کی جاتی رہی ہے۔ انہوں نے غالب پر ایک کتاب 1936 ء میں شائع کی۔ جس کی انفرادیت سے کسی کو انکار نہیں۔ دراصل انہوں نے یہ کتاب اس طرح لکھی کہ اس میں غالب کی سوانح عمری بھی داخل ہوگئی۔ بعد میں غالب کی سوانح عمری پر بہت کچھ لکھا گیا لیکن اس کتاب کی اہمیت کبھی کم نہیں ہوئی۔ پھر موصوف نے دو جلدوں میں غالب کے خطوط مرتب کئے اور مفید حواشی لکھے۔ ان کی ایک کتاب حضرت سید احمد شہید بریلوی پر 1952ء میں شائع ہوئی جس کی تکمیل میں ان کے 18 سال صرف ہوئے۔ اس سلسلے کی ایک کتاب ’’سرگزشت مہاجرین‘‘ بھی شائع ہوئی جس میں حضرت شہید کے رفیقوں کے حالات ہیں۔ ’’انقلاب‘‘ کے نام سے ایک کتاب 1857ء کے ہنگامے کے سلسلے میں قلمبند کی۔ اقبال کے سلسلے میں ان کا کام بیحد معیاری ہے۔ مالک رام لکھتے ہیں کہ چونکہ مہر مدتوں اقبال کے ساتھ رہے تھے اس طرح ان کا وافر کلام ان کے پاس موجود تھا جسے موصوف شائع کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے ’’بانگ درا‘‘، ’’بال جبریل‘‘، ’’ضرب کلیم‘‘ کے محتویات پر گہری تجزیاتی نظر ڈالی ہے۔ ایک کتاب اقبال کی سوانح سے متعلق بھی ہے۔ مہر بچوں کے ادب سے بھی دلچسپی لیتے رہے تھے اور اس سلسلے میں چھوٹی بڑی تقریباً پچاس کتابیں قلمبند کیں۔ انہوں نے تاریخ اسلام کا بھی گہرا مطالعہ کیا اور اس سلسلے کی کتابوں کا ترجمہ کیا۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ مولانا غلام رسول مہر ایک اچھے صحافی، ماہر غالبیات اور فدائے اقبال تھے اور اس سلسلے میں انہوں نے کئی اہم کام سرانجام دیئے۔ ان کا انتقال حرکت قلب بند ہوجانے سے 16؍نومبر 1971 ء کو لاہور میں ہوا اور وہیں مدفون ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets