aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
امیر حمزہ ثاقب ہندوستان کی اس نئی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جن کی شاعری نے ایک طویل حبس زدہ شعری فضا میں خوشگوار جھونکوں کا احساس دلایا ہے۔موسم کشف ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو ۲۰۱۴ میں چھپ کر آیا ہے ۔یہ شاعری اپنی لسانی تشکیلات کی وجہ سے خاصی اہم ہے ۔ امیر حمزہ ثاقب کا کلاسیکی شعور ان کے شعری اظہار کی بنیادی شناخت ہے ،ان کے یہاں غزل میں تجربے کے نام پر جو کچھ ہے اس کا رشتہ بھی کلاسیکی غزل سے جڑتا ہے۔یہاں دیکھنے کی بات یہ کہ ایک صحت مند کلاسیکی شعور کس خوبصورتی کے ساتھ ایک جدید تر متن کی تخلیق میں اساسی کردار ادا کرتا ہے۔موسم کشف پڑھئے اور دیکھئے کہ غزل کی صنف اپنی روایت میں رہ کر بھی کن کن صورتوں میں جدید ہو سکتی ہے۔
امیر حمزہ ثاقبؔ یکم جنون، 1970ء کو ممبئی میں پیدا ہوئے۔ آبائی وطن اعظم گڑھ ہے۔ عطاء الرحمٰن کے صاحبزادے ہیں اپنے والد کی اچھی تربیت کا اثر لیا ہے۔ ایم۔ اے کرنے کے بعد صمدیہ جونیئر کالج میں پڑھاتے تھے۔ استاد شاعر شاکر ادیبی کے ہونہار شاگرد ہیں۔ اکثر رسالوں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ آل انڈیا ریڈیو پر بھی اپنے استاد کی طرح شعر سناتے ہیں۔ غزلیں نئے رنگ میں کہتے ہیں۔ پڑھنے کا انداز بھی اچھا ہے۔ تحقیقی کام بھی کر رہے ہیں۔ شاعری کے علاوہ افسانہ نگاری اور مضمون نگاری سے بھی دلچسپی ہے۔ کئی پروگراموں کی نظامت بھی امیر حمزہ ثاقبؔ کے ذمہ رہی اور مقالے بھی پڑھتے ہیں۔ نئی نسل سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے منفرد اسلوب کی بنا پر اپنی شناخت بنائی ہے۔ اہل نقدونظر سے داد حاصل کرتے ہیں۔
پچھلے کئی برسوں سے غلام محمد ویمنس کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ اکثر طلباء کی رہنمائی کے لیے ادبی پروگرام کا اہتمام کرتے رہتے ہیں، کم گو ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ 'موسم کشف' اور یہی کتاب ناگری رسم الخط میں ''جسم کا برتن سرد پڑا ہے'' کے نام سے شائع ہوئی ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets