aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
چراغ حسن حسرت کا شمار بیسویں صدی کے ان جید ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی علمی و ادبی شخصیت سے اپنے دور کے ادب اور صحافت پر دیر پا نقوش مرتب کیے۔جہاں ان کی شاعری بڑی اہمیت کی حامل ہے وہیں انہوں نے اردونثر میں ایسے اسلوب کو متعارف کرایاجس کے اثرات آج بھی نمایاں اور اچھوتے دکھائی دیتے ہیں۔چراغ حسن حسرتؔ کی نثر مختلف النوع موضوعات پر مشتمل ہے۔وہ متین و سنجیدہ،خالص ادبی و رومانی اور مزاحیہ، الغرض ہر قسم کی نثر لکھتے تھے۔چونکہ ان کی عملی زندگی کا آغاز صحافت کی دنیا سے ہوا تھا اس لیے کالم نگاری ان کی نثری تحریروں کا اہم حصہ شمار ہوتا ہے۔اس کے علاوہ فکاہی مضامین ،خاکہ نویسی ،تراجم دیباچے ،تنقیدات ،تبصرے اور تحقیقی مضامین وغیرہ ان کی نثری تحریروں کی مختلف صورتیں ہیں۔ زیر نظر کتاب"مضامین"چراغ حسن حسرت کے مضامین کا مجموعہ ،اس مجموعہ میں ان کے مزاحیہ ، سنجیدہ ، تحقیقی و تنقیدی ہر نوع کے مضامین شامل ہیں ۔
چراغ حسن حسرت کا شمار بیسویں صدی کے ان جید ادیبوں ، شاعروں اور صحافیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے عہد پر دیر پا نقوش مرتب کئے۔ ان کی پیدائش 1904 کو پونچھ (کشمیر) میں ہوئی ۔ فارسی اردو اور عربی کی ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی ، پونچھ میں میٹرک کیا اور لاہور سے بی، اے کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد ’زمیندار‘ ’انصاف‘ اور ’احسان‘ جیسے اہم اخبارات سے وابستہ ہوکر صحافیانہ سرگرمیوں میں شامل ہوگئے۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران حسرت ’فوجی اخبار‘ کے مدیر بھی رہے۔ روزمانہ ’امروز‘ میں حسرت نے ’سند باد جہازی‘ کے نام سے مذاحیہ کالم لکھے جو اس وقت بہت مقبول ہوئے اور بہت دلچسپی کے ساتھ پڑھے گئے۔ حسرت زندگی بھر اس قدر متنوع علمی اور تحقیقی کاموں میں لگے رہے کہ انہیں شاعری کے لئے کم وقت مل سکا۔ انہوں نے مسلمانوں کے عروج و زوال کی ’سرگذشت اسلام‘ کے نام سے کئی جلدوں پر مشتمل تاریخ لکھی۔ اسی کے ساتھ قائد اعظم محمد علی جناح اور اقبال پر ان کی کتابیں اپنے علمی اور فکری مباحث اور استدلال کی وجہ سے آج بھی اہمیت کی حامل تصور کی جاتی ہیں۔ 26 جون 1955 کو لاہور میں انتقال ہوا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets