aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
’’اگر آپ اردو زبان کے سچّے ہمدرد ہیں تو ہندو مسلمانوں میں اتّفاق پیدا کرنے کی کوشش کیجئے ورنہ وہی انجام ہوگا جو ماں باپ کی باہمی لڑائی اور جھگڑے فساد سے اُن کے بچّوں کا ہوتا ہے۔‘‘
عبدالحلیم شررؔ (خطبہ)
عبدالحلیم شررؔ اردو کے ان ادیبوں میں ہیں جنھوں نے اردو شعر و ادب میں متعدّد نئی اور کارآمد ہیئتوں کو یا تو روشناس کیا یا اعتبار و امتیاز بخشا۔ انھوں نے اپنی ادبی زندگی کے آغاز میں ہی دو ڈرامے ’’میوۂ تلخ‘‘ (1889) اور ’’شہید وفا‘‘(1890) لکھے۔ ان کے جیسے منظوم ڈرامے ان سے پہلے نہیں لکھے گئے تھے۔ شرر نے اپنے ناولوں ’’فتح اندلس‘‘ اور ’’رومتہ الکبریٰ‘‘ پر بھی دو مختصر منظوم ڈرامے لکھے۔ منظوم ڈرامہ نگاری اور آزاد (بے قافیہ) نظم کے پر جوش مبلّغ اردو میں شرر ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ جو کام نظم معریٰ سے لیا جا سکتا ہے وہ غزل سمیت کسی شعری ہیئت سے نہیں لیا جا سکتا۔ ان کے نزدیک ردیف تو شاعر کے پیر کی بیڑی ہے ہی، قافیہ بھی اس کے تخیّل پر پابندیاں لگاتا ہے۔ ان کی یہ سوچ اپنے زمانہ سے بہت آگے کی سوچ تھی۔ شرر اردو کی ’’اردویّت‘‘ پر زور دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ اردو صرف و نحو مرتب کرتے ہیں وہ عربی قواعد زبان سے مدد لیتے ہیں لیکن وہ سخت غلطی پر ہیں، عربی کے قواعد ہماری زبان پر ہرگز پورے نہیں اترتے۔ شرر انتہائی بسیار نویس ادیب تھے۔ معاشرتی اور تاریخی ناول، ہر ہر قماش کا انشائیہ، سوانح، تاریخ، ڈرامہ، شاعری، صحافت اور ترجمہ،غرض کہ کوئی میدان ان پر بند نہیں تھا۔ لیکن ان کا اصل جوہر تاریخی ناولوں اور مضامین میں کھلا ہے۔ آزاد نظم کی تاریخ بھی ان کی جودت اور پیش بینی کا اعتراف کئے بغیر مکمل نہیں ہو گی۔
عبدالحلیم شررؔ 1860ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام تفضّل حسین تھا اور وہ حکیم تھے۔ شررؔ کے نانا واجد علی شاہ کی سرکار میں ملازم تھے اور واجد علی کی معزولی کے بعد ان کے ساتھ مٹیا برج چلے گئےتھے۔ بعد میں انھوں نے شرر کے والد کو بھی کلکتہ بلا لیا۔ شررؔ لکھنؤ میں رہے اور پڑھائی کی طرف متوجہ نہیں ہوئے تو ان کو بھی مٹیا برج بلا لیا گیا جہاں انھوں نے والد اور کچھ دوسرے علماء سے عربی، فارسی اور طب پڑھی۔ شررؔ ذہین اور بیحد تیز طرّار تھے جلد ہی انھوں نے شہزادوں کی محفلوں میں رسائی حاصل کر لی اور ان ہی کے رنگ میں رنگ گئے۔
آخر کار والد صاحب نے انھیں لکھنؤ بھیج دیا ۔ لکھنؤ میں اس زمانہ میں مناظروں کا زور تھا۔ ذرا ذرا سی بات پر کوئی ایک فرقہ دوسرے کو مناظرہ کی دعوت دے بیٹھتا تھا۔ شررؔ بھی ان مناظروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے اور ان پر مذہبیت سوار ہونے لگی۔ وہ حدیث کی مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے دہلی جانا چاہتے تھے۔ وہاں میاں نذیر حسین محدث کا بڑا شہرہ تھا۔ گھر والوں نے انھیں روکنے کے لئے 18 سال کی عمر میں ہی ان کی شادی کرا دی لیکن وہ اگلے ہی سال دہلی جا کر نذیر حسین کے حلقۂ درس میں شامل ہو گئے۔ دہلی میں انھوں نے ازخود انگریزی بھی پڑھی۔ 1880ء میں دہلی سے وہ بالکل زاہد خشک بن کر لوٹے۔ لکھنؤ میں وہ منشی نول کشورکے ’’اودھ اخبار‘‘ کے صحافتی عملہ میں شامل ہو گئے۔ یہاں انھوں نے بےشمار مضامین لکھے۔ ’’روح‘‘ کے موضوع پر ان کے اک مضمون کے خیالات کو اپنی تفسیر میں اخذ کرنے کے لئے سر سید احمد خان نے ان کی اجازت طلب کی۔ ’’اودھ اخبار‘‘ کی ملازمت کے دوران ہی انھوں نے اک دوست کے نام سے اک پندرہ روزہ ’’محشر‘‘ جاری کیا جو بہت مقبول ہوا تو نول کشور نے ان کو ’’اودھ اخبار‘‘ کا خصوصی نمائندہ بنا کر حیدرآباد بھیج دیا۔ اس طرح محشر بند ہو گیا۔ شررؔ نے تقریبا 6 مہینے حیدرآباد میں گزارنے کے بعد استعفیٰ دے دیا اور لکھنؤ واپس آ گئے۔ 1886ء میں شررؔ نے بنکم چندر چٹرجی کے مشہور ناول ’’درگیش نندنی‘‘ کے انگریزی ترجمہ کو اردو میں منتقل کیا اور اس کے ساتھ ہی اپنا رسالہ ’’دلگداز’’ جاری کیا جس میں ان کا پہلا تاریخی ناول ’’ملک العزیز ورجنا‘‘ قسط وار شائع ہوا۔ اس کے بعد انھوں نے ’’حسن انجلینا‘‘ اور ’’منصور موہنا‘‘ شائع کئے جو بہت مقبول ہوئے۔ 1892ء میں شررؔ نواب وقارالملک کے بیٹے کے اتالیق بن کر انگلستان چلے گئے۔ انگلستان سے واپسی کے بعد انھوں نے حیدرآباد سے ہی ’’دلگداز‘‘ دوبارہ جاری کیا اور یہیں انھوں نے اپنا معرکہ آرا ناول ’’فردوس بریں‘‘ لکھا۔ پھر جب انھوں نے اپنی تاریخی کتاب ’’سکینہ بنت حسین‘‘ لکھی تو حیدرآباد میں ان کی سخت مخالفت ہوئی اور ان کو وہاں سے نکلنا پڑا۔ لکھنؤ واپس آ کر انھوں نے ’’دلگداز‘‘ کے ساتھ ساتھ اک پندرہ روزہ ’’پردۂ عصمت’’ بھی جاری کیا۔ 1901 میں شررؔ کوایک بار پھر حیدرآباد طلب کیا گیا لیکن جب وہ اس بار حیدرآباد پہنچے تو ان کے ستارے اچھے نہیں تھے۔ ان کے مربّی خاص وقار الملک معتوب ہو کر برطرف کر دئے گئے اور پھر ان کا انتقال ہو گیا۔ 1903 میں شررؔ کو بھی ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ اس طرح 1904ء میں ایکبار پھر ’’دلگداز‘‘ لکھنؤ سے جاری ہوا۔ لکھنؤ آ کر وہ پورے انہماک کے ساتھ ناول اور مضامین لکھنے میں مصروف ہو گئے۔ اسی زمانہ میں چکبست کے ساتھ ان کا معرکہ ہوا۔ چکبست نے دیاشنکر نسیمؔ کی مثنوی ’’زہرعشق‘‘ از سر نو مرتب کر کے شائع کرائی تھی اس پر ’’دلگداز‘‘ میں تبصرہ کرتے ہوئے شررؔ نے لکھا کہ اس مثنوی میں جو بھی اچھا ہے اس کا کریڈٹ نسیمؔ کے استاد آتش کو جاتا ہے اور زبان کی جو خرابی اور مثنوی میں جو ابتذال ہے اس کے لئے نسیمؔ ذمہ دار ہیں۔ اس پر دونوں طرف سے گرما گرم بحثیں ہوئیں۔ ’’اودھ پنچ‘‘ میں شررؔ کا مذاق اڑایا گیا۔ لیکن معاملہ انشاء اور مصحفی یا آتش و ناسخ کے معرکوں کی حد تک نہیں پہنچا۔ ’’دلگداز‘‘ میں شررؔ نے پہلی بار آزاد نظم کے نمونے بھی پیش کئے اور اردو داں طبقہ کو انگریزی شعر و ادب کے نئے رجحانات سے متعارف کرایا۔ دسمبر 1926ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔
شررؔ کا تاریخ کا تصور احیاء پسندانہ تھا۔ والٹراسکاٹ کی طرح انھوں نے بھی اپنے تاریخی ناولوں میں قوم کے تہذیبی و سیاسی عروج کی داستانیں سنا کر اسے بیداری اور عمل کا پیغام دیا اور زندگی کو صالح اقدار پر استوار کرنے کی کوشش کی۔ شررؔ نے تاریخی ناول اور ہر قسم کے موضوعا ت پر ایک ہزار سے زائد مضامین لکھ کر ثابت کیا کہ وہ اردو کے دامن کو مالامال کرنے کے جذبہ سے کس قدر سرشار تھے۔ نئے حالات اور پڑھنے والوں کے مزاج میں تبدیلی کے ساتھ ان کی تحریریں اب پہلی جیسی تازگی سے محروم ہوگئی ہیں لیکن ان کی کم سے کم دو کتابیں ’’فردوس بریں‘‘ اور ’’گزشتہ لکھنؤ‘‘ کی توانائی اور تجمل میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ دو کتابوں پر ہمیشگی کسی بھی ادیب کے لئے قابل رشک ہو سکتی ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets