aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو شاعری کا ذکر میر تقی میرؔکے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ان کی شاعری میں کچھ ایسی دلآویز کشش ہے کہ ان کی شاعری کو پڑھ کر ہر حساس دل ان کے غم میں ڈوب جاتا ہے۔میر احساس اور جذبے کا شاعر ہے۔ان کا یہی احساس قاری پر بھی اثر کرتا ہے۔اس کتاب میں میر کے حالات زندگی،ان کا ماحول،ان کی شخصیت،تصانیف،تغزل کا جائزہ اختصار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس کتاب میں میرؔکی شاعری کے فکری پہلو اور فن کی اہمیت کا اختصار سے لیکن تنقیدی جائزہ لیا گیاہے۔یہ کتاب میرؔ اور میر کی شخصیت و شاعری کو سمجھنےمیں بےحدمعاون ہے۔میر کی شاعری درد کی شاعری ہے۔کیوں کہ ان کی زندگی غم سے عبارت تھی اس لیے ان کاکلام جہاں ان کے درد کو عیاں کرتا ہے وہیں قاری کو آنسو بہانے پر مجبور کرتا ہے۔
عبادت بریلوی کی پیدائش 14؍اگست 1920ء میں ہوئی۔ حصول تعلیم کے بعد تدریسی زندگی اختیار کی۔ پہلے اینگلوعربک کالج دہلی میں مدرس ہوئے لیکن تقسیم ملک کے بعد ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے۔ لاہور میں اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ ہوئے اور ترقی کرتے ہوئے شعبہ اردو کے صدر بن گئے۔ ڈین فیکلٹی آف آرٹس بھی ہوئے۔ اورینٹل کالج کے پرنسپل بھی رہے۔ 1980ء میں اپنے عہدہ سے سبکدوش ہوئے۔ عبادت بریلوی نے انقرہ یونیورسٹی، ٹرکی اور اسکول آف افریقن اورینٹل اسٹڈیز لندن میں استاد کی خدمات انجام دیں۔
عبادت بریلوی اردو کے نامور نقاد اور محقق ہیں۔ ان کی بعض کتابیں ہندوپاک کی مختلف یونیورسٹیوں کے نصاب میں رہی ہیں۔ ان کی شہرت کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ ویسے انہوں نے اردو تنقید میں اپنی ایک مخصوص جگہ بنا لی ہے۔ اس حد تک کہ یہ نام فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی تصنیف و تالیف کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔ چند کے نام ہیں: ’’اردو تنقید کا ارتقا‘‘، ’’تنقیدی زاویے‘‘، ’’غزل اور مطالعہ غزل‘‘، ’’غالب کا فن‘‘، ’’روایت کی اہمیت‘‘، ’’جدید شاعری‘‘، ’’جدید اردو ادب‘‘ اور ’’میرتقی میر‘‘۔ یہ ساری کتابیں اہم سمجھی جاتی ہیں۔ طلبا کے لیے یہ مفید تو ہیں ہی اردو شعروادب کے مزاج کی تفہیم میں ذہین لوگوں کے لئے بھی راہیں متعین کرتی ہیں۔
عبادت بریلوی تنقید کی کوئی بوطیقا مرتب نہیں کرتے۔ نہ ہی کسی شعریات کی کنہہ میں داخل ہوتے ہیں۔ دراصل ان کا سروکار وضاحتی تجزیے سے ہے۔ ایسے تجزیے میں کسی صنف کے ابتدائی احوال سے لے کر ارتقائی مرحلے سبھی زیر بحث آجاتے ہیں۔ ان کا تجزیہ عام طور سے ہمدردانہ ہوتا ہے۔ وہ ادبی مسائل کی تہہ در تہہ پیچیدگی سے اپنا رشتہ قائم نہیں رکھتے بلکہ معنوی سطح پر ایسا سروکار رکھتے ہیں کہ ادب پارہ کے وہ احوال روشن ہوجائیں جو عام طور سے سطح پر ہوتے ہیں۔ وہ اپنی تنقیدی روش کو بوجھل نیں بناتے بلکہ تجزیے کے مقبول طریقہ کار کو اپناتے ہیں۔
عام طور سے نقاد اپنے علم کا بوجھ اپنے تجزیے میں اس طرح بھردیتا ہے کہ پڑھنے والا سراسیمہ ہوجاتا ہے اور علمیت کے اظہار کی پیچیدہ نفسیات اس کے لئے تفریح کا کوئی سامان بہم نہیں پہنچاتی لیکن عبادت بریلوی ایسے علمی بوجھ سے اپنی نگارشات کو گراں بار نہیں بناتے۔ کبھی کبھی ان کے یہاں تکرار لفظی و معنوی کا احساس ہوتا ہے اور یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ کہ اگر وہ اختصار اور جامعیت سے کام لیتے تو ان کی تحریریں اور بھی مفید ہوتیں۔ لیکن ان امور کو منہا کیجئے تو پھر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موصوف کی غایت دراصل کسی ادب پارے کی ایسی ترسیل ہے جہاں کوئی پیچیدگی پیدا نہ ہو۔ طوالت کی شاید یہی وجہ ہے لیکن ذہین پڑھنے والے گاہے گاہے تکرار میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔
میر اور غالب پر ان کے مطالعات وقیع سمجھے جاتے ہیں۔ ان موضوعات کو انہوں نے کچھ مختلف طریقے سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنی تنقید نگاری کو وہ ایک واضح سمت دینا چاہ رہے ہیں اوریہ بھی کہ وہ اپنے موضوعات کے داخلی امور پر نگاہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن ایسی تحریریں ان کے آخری وقتوں کی نشانی ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ اردو تنقید میں عبادت بریلوی کا ایک خاص رول ہے اور یہ رول اہم بھی ہے۔
ڈاکٹر عبادت بریلوی کا انتقال 78برس کی عمر میں نومبر 1998ء میں ہوئی۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets