aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
میراجی کی غیر مطبوعہ نظموں کا مجموعہ ہے۔ جس میں میراجی کے نظمیں "الجھن کی کہانی، دو نقشے، نغمہ محبت، چھیڑ، تحلیل کی بعد، زندگی ختم ہوئی وغیرہ شامل ہیں۔ میرا جی کا شعری افق بہت وسیع تھا خصوصا ان کے مطالعے کی وسعت نے انہیں ارد وکے علاوہ دوسری زبانوں کے جس شعری سرمائے سے روشناس کرایا تھا، اس نے ان کے شعری ذوق اور شعری دنیا کی سرحدوں کو بہت پھیلایا ہے۔ شاعری خصوصا نظم میں ان کی خدمات اور کام کو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ میرا جی صرف ایک شاعر ہی نہیں تھے بلکہ اپنی جگہ ایک مکمل ہنگامہ بھی تھے۔ انھوں نے اپنی نظموں میں نئے طر ز کو اپنایا تھا۔ عام طور پر میراجی ایک مشکل شاعر سمجھے جاتے ہیں حالانکہ ان کا کلام انتہائی عام فہم اور عوامی زبان میں ہے۔
میرا جی اردو کے ان شاعروں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے علامتی شاعری کو نیا انداز اور فروغ دیا۔ ن م راشد کا ماننا تھا کہ میراجی محض شاعر نہیں بلکہ ایک ادبی مظہر تھے۔
میراجی کا اصل نام محمد ثناء اللہ ڈار تھا۔ ان کی پیدائش 25 مئی 1912 کو لاہور میں ہوئی۔ کشمیری نژادکے خاندان سے تعلق رکھنے والے میراجی نے علمی وادبی ماحول میں پرورش پائی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد وہ ادبی دنیا کے معروف جریدے “ادبی دنیا” سے منسلک ہوئے، جہاں انہوں نے مضامین لکھے اور مشرق ومغرب کے شاعروں کے تراجم کئے۔
میراجی کی شاعری انسانی شعور اور تحْتُ الشّعُور کی کیفتیوں کو نئی زبان اور علامتوں کے ذریعے پیش کرتی ہے۔ ان کے کلام میں ہندوستانی تہذیب کی جھلک نمایاں ہے۔ ان کی تخلیقات میں 223 نظمیں، 136 گیت، 17 غزلیں اور مختلف تراجم شامل ہیں۔ 3 نومبر 1949 کو بمبئی میں ان کا انتقال ہوا، مگر ان کی شاعری آج بھی اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔