aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو نظم کے ارتقا میں میراجی کا نام اہم ہے۔ وہ اپنی نظموں کے لیے ایک خاص فضا قائم کرتے ہیں، جس سے ان کا ہندوستانی تہذیب اور اس دھرتی سے لگاؤ سامنے آتا ہے۔ میراجی نے اردو نظم کو ہیئت اور طرز دونوں کے اعتبار سے یورپی نظموں کے بلندر معیار سے اہم آہنگ کرنے کی شعوری کوشش کی۔ ان کا مطالعہ خاصا وسیع تھا۔ انگریزی، فرانسیسی، امریکی، جرمنی اور روسی زبانوں کی شاعری کا مطالعہ کیا تھا۔ ان زبانوں کی کئی نمائندہ نظموں کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔ میراجی کی نظموں میں جنس ایک اہم موضوع رہا ہے۔ انہوں نے اپنی نظموں میں جنسی موضوع کو بھر پور انداز میں برتا ہے، زیر نظر کتاب میں جو نظمیں شامل ہیں ان میں ایسی نظمیں بھی ہیں جن میں جنسی الجھن کا موضوع پست سطح سے بلند ہو کر اس دور کی اجتماعی زندگی میں ایک اہم پہلو کا مظہر ہو جا تاہے، اور بعض ایسی نظمیں ہیں جن میں دوری کی اذیت، شخصی محرومی، غم انتظار، ذہنی تلاش اورذوق تپش کا بیان ملتاہے۔
اردو کا بوہیمین شاعر
’’بحیثیت شاعر اس (میراجی) کی حیثیت وہی ہے جو گلے سڑے پتّوں کی ہوتی ہے، جسے کھاد کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس کا کام بہت عمدہ کھاد ہے جس کی افادیت ایک نہ ایک دن ضرور ظاہر ہو کر رہے گی۔ اس کی شاعری ایک گمراہ انسان کا کام ہے جو انسانیت کی عمیق ترین پستیوں سےمتعلق ہونے کے باوجود دوسرے انسانوں کے لئے اونچی فضاؤں میں مرغ باد نما کا کام دے سکتا جس کے ٹکڑے ہے۔ اس کا کلام ایکJIGSAW PUZZLE ہے۔ جسے بڑے اطمینان و سکون سے جوڑ کر دیکھنا چاہئے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
میرا جی کا نام اردو میں آزاد نظم اور علامتی شاعری کورائج کرنے اور اسے فروغ دینے والوں میں سر فہرست ہے۔ ن۔ م راشد کا کہنا تھا کہ میرا جی محض شاعر نہیں، اک فینومینن ہیں۔ میراجی نے ہندوسان کی دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ مغربی ادبی رجحانا ت، جدید نفسیات اور ہندو دیو مالا کی روح کو اپنے اندر جذب کر کے اسے خالص ہندوستانی زبان کا جامہ پہنایا۔ انھوں نے ایک طرف ہندوستان کے چنڈی داس، میرا بائی اور ودیاپتی کا اثر قبول کیا تو دوسری طرف فرانکوی ولن، چارلس بودلیراور ملارمے(فرانسیسی) وٹمین اور پو(امریکی) ڈی ایچ لارنس اور کیتھرین مینسفیلڈ (برطانوی)، پشکن(روسی) اور ہائنے (جرمن) کے ادبی رویوں کا جوہر تلاش کر کے اسے اردو شاعری کے جسد میں داخل کیا۔ میرا جی کا کہنا تھا کہ محض آزاد نظم کی ہیئت استعمال کر کے کوئی جدید شاعر نہیں بن جاتا۔ اس کے لئے جدید حسیّت بھی ضروری ہے۔ ان کے گوناگوں شعری، نفسیاتی اور حسّی تجربات کی آمیزش نے میرا جی کی شاعری کومشکل لیکن منفرد اور وقیع بنا دیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے الفاظ میں "میراجی کی شاعری سماج کے اک ایسے ذہن کی ترجمانی کرتی ہے کہ میرا جی سے کم اخلاقی جرات رکھنے والا انسان اس کو پیش ہی نہیں کر سکتا تھا اور میراجی کی شاعری میں خلوص و صداقت کا وہ عنصر ملتا ہے کہ ہم ان کی شاعری کا احترام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔" یہ حقیقت ہے کہ میراجی کی شاعری نے اپنے قاری پر اتنا اثر نہیں ڈالا جتنا مجموعی طور پر اپنے بعد لکھے جانے والے ادب پر ڈالا ہے۔
قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ اس نے شاعری کا یہ گلاب گوبر کے ڈھیر پر کھلایا۔ میرا جی کی ظاہری شخصیت حد درجہ غلیظ اور کریہہ تھی۔ میلے کچیلے کپڑے، ہر موسم میں جاڑوں کا لباس، لمبی چیکٹ زلفیں، گندے ناخون، گلے میں گز بھر کی مالا، ہاتھ میں لوہے کے تین گولے جن پر سگرٹ کی پنّی مڑھی ہوتی، دن رات نشہ میں دھت، مشت زنی کی قبیح لت اور اس کا فخریہ بیان، رنڈی بازی اور اس کے نتیجہ میں آتشک، شائستہ محفلوں میں جوتوں سمیت اکڑوں کرسی پر بیٹھنا، سالن میں زردہ یا کھیر ملا کر کھانا، مشاعرہ میں سامعین کی طرف پیٹھ کر کے نظم سنانا، نشہ میں دھاڑیں مار مار کر رونا، اسپتال میں نرس کی کلائی دانتوں سے کاٹ لینا۔ حد درجہ جنسی پرورژن، ان سب باتوں نے میرا جی کی شخصیت کو افسانہ بنا دیا۔ ایسی شخصیت جو ان کی شاعری کی مطالعہ میں آڑے آتی ہے اوراکثر ان کے قاری اوران کی شاعری کےدرمیان آڑ بن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔
میرا جی کا اصل نام محمد ثناءللہ ڈار تھا۔ وہ 25 مئی 1912 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان کچھ نسلوں پہلے کشمیر سے آ کر گوجرانوالہ میں آباد ہو گیا تھا میراجی کے والد منشی مہتاب الدین ریلوے میں ٹھیکیداری کرتے تھے۔ ایک بار ان کو کاروبار میں اتنا گھاٹا ہوا کہ کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے۔ تب ایک انگریز انجینیر نے انھیں برج انسپکٹر بنا دیا اور وہ ملازمت کے سلسلہ میں مختلف مقامات پر رہے۔ میراجی کی والدہ سردار بیگم ان کی دوسری بیوی اور عمر میں ان سے بہت چھوٹی اور نہایت خوبصورت ہونے کی وجہ سے شوہر پر حاوی تھیں۔ ماں سے میراجی کو بہت محبت تھی اور وہ اان کو مظلوم سمجھتے تھے۔ میراجی کے بچپن اور نوجوانی کا کچھ حصہ ہندوستان کی ریاست گجرات میں گزرا ان کو نصابی کتابوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی جبکہ دوسری ادبی اور علمی کتابوں کا کیڑا تھے۔ وہ میٹرک کا امتحان نہیں پاس کر سکے۔ "ادبی دنیا" کے مدیر مولانا صلاح الدین منشی مہتاب الدین کے دوست تھے۔ منشی جی نے ریٹائرمنٹ کے بعد جو کچھ ملا تھا وہ مولانا صلاح الدین کے ساتھ تجارت میں لگا دیا لیکن پیسہ ڈوب گیا اور منشی جی کے تعلقات مولانا سے خراب ہو گئے۔ میٹرک میں فیل ہونے کے بعد میراجی نے باپ کی مرضی کے خلاف مولانا صلاح الدین کے رسالہ "ادبی دنیا" مین تیس روپے ماہوار پر ملازمت کر لی۔ اور یہیں سے ان کے ادبی سفر کا آغاز ہوا۔ "ادبی دنیا" میں کام کرتے ہوئے میرا جی نے بہت سے مغربی اور مشرقی شعراء کی زندگی اور ان کے ادب سے اردو دنیا کو باخبر کرنے کے لئے مضامین لکھے اور ان کی تخلیقات کے ترجمے کئے جو بعد میں "مشرق و مغرب کے نغمے" کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ اس عرصہ میں"ادبی دنیا" اور دیگر رسالوں میں ان کی طبع زاد تخلیقات شائع ہونے لگیں اور ان کے تنقیدی مضامین نے قارئین کو متوجہ کیا۔ لاہورمیں اسکول کے زمانہ میں ان کو ایک بنگالی لڑکی میرا سین سے عشق ہو گیا۔ یہ انتہائی شدید انفیچوئیشن تھا۔ اتنا شدید کہ ثناءللہ ڈار نے اپنا تخلص ساحری سے بدل کر میراجی رکھ لیا۔ وہ میراسین کا خاصے فاصلے تعاقب کرتے تھے اور صرف ایک بار اسے راستہ میں روک کر بس اتنا کہہ سکے تھے کہ "مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے" میرا سین کوئی جواب دئے بغیر ان کو خشمگیں نگاہوں سے گھورتے ہوئے آگے بڑھ گئی تھی۔ میرا جی نے اپنے اس جنونی عشق کا بڑا ڈھنڈورا پیٹا جبکہ حسن عسکری کا بیان کچھ اور ہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "ایک دن کوئی بنگالی لڑکی ان کے سامنے سے گزری۔ دوستوں نے یوں ہی مذاق میں کہا کہ یہ ان کی محبوبہ ہے۔ دو چار دن لڑکوں نے میرا کا نام لے کر انھیں چھیڑااور وہ ایسے بنے رہے جیسے واقعی چڑ رہے ہوں۔ پھر جب انھوں نے دیکھا کہ دوست انہیں افسانہ بنا دینا چاہے ہیں وہ بے تامل بن گئے اوراس کے بعد ان کی ساری عمر اس افسانے کو نبھانے میں گزری۔" بعید نہیں کہ کہ اپنی ہیئت کذائی، شراب نوشی اور خود لذتی کی عادت کے لئے ان کو میرا سین کے عشق میں ناکامی کی صورت میں اک جواز کی ضرورت پڑی ہو۔ میرا جی 1938ء سے 1941ء تک "ادبی دنیا" سے وابستہ رہے۔ تنخواہ بہت کم تھی لیکن اس ملازمت نے ان کے فکر و شعور کو وہ جلا بخشی جس نے انہیں میرا جی بنایا۔ 1941 میں ان کو ریڈیو اسٹیشن لاہور پر ملازمت مل گئی۔ اور 1942 میں ان کا تبادلہ دہلی ریڈیو اسیشن پر ہو گیا۔ اب ان کے مالی حالات بہتر تھے لیکن دوسری تمام بری عادتیں جاری تھیں بلکہ ان میں طوائفوں کے کوٹھوں پر جانے کا اضافہ بھی ہو گیا تھا جہان سے وہ آتشک کا تحفہ بھی لے آئے تھے۔ ان کو اپنی تمام قبیح حرکتوں کی تشہیر کا بھی ذوق تھا اور ایسا کر کے لطف حاصل کرتے تھے۔ میرا سین سے اپنے دنیا سے نرالے عشق کے بلند بانگ دعووں کے باوجود انہوں نےدفتر کے عملہ کی دو تیز طرار لڑکیوں سحاب قزلباش اور صفیہ معینی کے ساتھ عشق کی پینگیں بڑھانے کی کوشش کی لیکن ان کے پاس ایسا کچھ نہیں تھا جو ان شوخ لڑکیوں کو متاثر کر سکے۔ جب وہ زیادہ پیچھے پڑے تو صفیہ معینی نے کہہ دیا "میرا جی رہنے دیجئے آپ ہیں کس لائق۔" 1945 میں میرا جی کی شامت نے انہیں گھیرا اور فلموں میں قسمت آزمانے بمبئی پہنچ گئے۔
بمبئی پہنچ کر میرا جی کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ تین مہینہ تک کوئی کام نہیں ملا۔ وہ کبھی اس کے پاس اور کبھی اُس کے پاس بن بلائے مہمان کی طرح وقت گزارتے رہے۔ پھر پونا چلے گئے جہاں اختر الایمان تھے۔ اختر الایمان نے ان کو محبت سے اپنے پاس رکھا۔ پونا میں بھی ان کی ملازمت کا کوئی بندوبست نہیں ہوسکا مجبوراً وہ 16 اکتوبر 1947ء کو بمبئی واپس آ گئے کچھ دنوں بعد اختر الایمان بھی بمبئی آ گئے تو انھوں نے رسالہ خیال نکالا اور ادارت میرا جی کو سونپ دی۔ اس کے لئے وہ میرا جی کو 100 روپے ماہوار دیتے تھے۔ اب تک کثرت شراب نوشی اور کھانے پینے میں بے قاعدگی کی وجہ سے ان کی صحت بہت خراب ہو چکی تھی۔ ان کو اسہال کی شکایت تھی لیکن نہ پرہیز کرتے تھے اور نہ علاج۔ جب حالت دگر گوں ہوتے دیکھے تواختر الایمان ان کو اپنے گھر لے گئے لیکن وہاں بھی وہ پرہیز نہیں کرتے تھے۔ جب حالت زیادہ بگڑی تو ان کو سرکاری اسپتال میں داخل کرا دیا گیا جہاں وہ کینٹین والوں اور دوسرے ملازمین سے بلکہ کبھی کبھی ساتھ کے مریضوں سے بھی کھانا مانگ کر بد پرہیزی کرتے تھے۔ ان کی دماغی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ آتشک کے مریضوں میں اکثر اس قسم کی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ میرا جی کے آخری ایّام انتہائی اذیت ناک تھے۔ ان کے سارے بال سفید ہو گئے تھے۔ ہاتھوں پیروں اور پیٹ پر ورم تھا، خون بننا بالکل بند ہو گیا تھا۔ 3 نومبر 1949ء کو ان کا انتقال ہو گیا جنازے میں پانچ آدمی تھے۔ اخترالایمان، مہندر ناتھ، مدھوسودن، نجم نقوی اور آنند بھوشن۔ تدفین میری لائن قبرسان میں ہوئی۔ تمام کوششوں کے باوجود بمبئی کے کسی اخبار نے ان کی موت پر ایک لائن کی خبر بھی نہیں شائع کی۔
میرا جی کی دستیاب شعری تخلیقات کو کلیات کی شکل میں جمع کیا جا چکا ہے جس میں 223 نظمیں، 136 گیت، 17 غزلیں، 22 منظوم تراجم 5ہزلیات اورمتفرقات شامل ہیں۔ نثر میں انھوں نے دامودر گپت کی قدیم سنسکرت کتاب"کٹنی متم"کا ترجمہ"نگار خانہ" کے نام سے کیا۔ متفرق تنقیدی مضامین اس کے علاوہ ہیں۔
میرا جی اک نئے دبستان شعری کے بانی ہیں ان کا موضوع انسان کا ظاہر نہیں باطن ہے۔ انسان کی وہ شعوری اور تحت الشعوری کیفیات، جو اس کے فکر و عمل کی محرّک ہوتی ہیں، میرا جی نے ان کے اظہار کے لئے نئی زبان نئی علامتیں نئی اصطلاحات اور نئے کردار وضع کرنے کی کوشش کی۔ ان کی نظمون میں ہندوستانی فضا بہت واضح اورگہری ہے۔ میراجی نے زبان و بیان کے جو تجربے کئے اورجس ذوق شعر کی ترویج کی کوشش کی اس کے نتیجہ میں ان کی حیثیت ایک بھٹکے ہوئے شاعر کی نہیں بلکہ ایسے فنکار کی ہے جس نے اک ایسے شعری اسلوب کی بنیاد رکھی جس میں عظیم شاعری کے امکانات پنہاں ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets