aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
افتخار عارف کی غزل پاکستانی غزل کی فکری اور جذباتی کائنات میں اپنے اسلوب کی ندرت اور الفاظ کی نئی معنویت اور موضوع کی سماجی و سیاسی اہمیت متعین کرنے میں پیش پیش ہے۔زیر تبصرہ کتاب "مہر دونیم" افتخار عارف کا پہلا شعری مجموعہ ہے، جو پہلی بار 1984ء میں اشاعت پزیر ہوا،اس مجموعے میں 64 غزلیں اور 46 نظمیں ہیں۔ انتساب 'بابال کے نام ہے۔ پیش لفظ کے عنوان سے فیض احمد فیض کا ابتدائیہ اور ڈآکٹر گوپی چند نارنگ کا مضمون بعنوان 'نئی تنہائیوں کا دردمند شاعر' بھی کتاب میں شامل ہے۔ سرورق حنیف رامے کے موقلم کا اعجاز ہے، فیض صاحب نے اپنے مضمون میں لکھا تھا "افتخار عارف بڑے ہو کر کیا کریں گے یا نہیں کریں گے یہ موسیقی کی اصطلاح میں ان کے ریاض پر ہے، ۔۔۔ وہ کچھ اور نہ بھی کریں تو یہ کتاب (مہرِدونیم) جدید ادب میں انھیں ایک معتبر مقام دلوانے کے لئے کافی ہوگی۔"
نام افتخار حسین عارف اور تخلص عارف ہے۔ ۲۳؍مارچ ۱۹۴۲ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ بی اے ، ایم اے لکھنؤ یونیورسٹی سے کیا۔جرنلزم کا ایک کورس انھوں نے کولمبیا یونیورسٹی سے بھی کیا۔۱۹۶۵ء میں مستقل طور پر پاکستان آگئے اور ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے۔اس کے بعد افتخار عارف پاکستان ٹیلی وژن سے وابستہ ہوگئے۔ جب ٹیلی وژن میں پروگرام ’’کسوٹی‘‘ کا آغاز ہوا تو عبید اللہ بیگ کے ساتھ افتخار عارف بھی اس پروگرام میں شریک ہوتے تھے۔ یہ پروگرام بہت علمی اور معلوماتی تھا۔ ۱۹۷۷ء میں ریڈیو اور ٹیلی وژن سے استعفا دے کر بی سی سی آئی بینک، لندن سے وابستہ ہوگئے۔ اس کے بعد ڈائرکٹر جنرل اکادمی ادبیات پاکستان ،صدر نشین مقتدرہ قومی زبان اور چیرمین اکادمی ادبیات پاکستان کے عہدوں پر فائز رہے۔ افتخار عارف نے نظم ونثر دونوں میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں : ’’مہر دونیم‘، ’حرف باریاب‘، ’بارہواں کھلاڑی‘، ’اقلیم ہنر‘، ’جہان معلوم‘، ’شہرعلم کے دروازے پر‘(نعت ،سلام ومنقبت)۔ ان کی علمی وادبی خدمات کے اعتراف میں ان کو’’آدم جی ایوارڈ‘‘،’’نقوش ایوارڈ‘‘، ’’صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی‘‘، ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور ’’ہلال امتیاز‘‘ مل چکے ہیں۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:357
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets