aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
علی عباس حسینی اردوافسانے کے بنیاد گذاروں میں شامل ہیں۔انھوں نے اردو افسانوں کو حقیقت کا رنگ دیاہے۔انھیں ہندوستانی تہذیب و تمدن، معاشرت اور عوامی مسائل سے زیادہ دلچسپی تھی۔اس لیے ان کے افسانوں کے موضوعات بھی یہی ہیں۔بیسویں صدی کے بدلتے حالات کی عکاسی ان کے افسانوں کی اہم خصوصیت ہے۔زیر نظر ان کا افسانوی مجموعہ "میلہ گھومنی" ہے۔جس میں اکیس افسانے شامل ہیں۔ان میں افسانہ "میلہ گھومنی" اہمیت کاحامل ہے ۔جس میں صنف نازک پر ہونے والے ظلم کو موضوع بنایا گیا ہے۔یہاں میلہ تو زندگی سے مستعار ہے۔جس میں عورت کو ایک کھلونہ بتایا گیا ہے جو کسی میلہ کی دکان میں سجی ہوتی ہے۔ کہانی موثر اور دلچسپ ہے۔مجموعہ میں شامل دیگر افسانوں میں بدلہ، کنجی،پہرے دار، بھکاری، کفن، کلی ،میخانہ وغیرہ بھی غریبوں اور لاچاروں کے مسائل کے ترجمان ہیں۔ وہیں امیری غریبی پر طنز بھی ہے۔اس کے علاوہ جاگیردارانہ نظام کی خوبیوں اور خامیوں کی عکاسی بھی ملتی ہے۔انھوں نے دیہی اور شہری زندگی کو پر لطف پیرائے میں بیان کیا ہے۔طرز بیان شگفتہ اور دلکش ہے۔زبان میں سلالست اورروانی ہے۔برمحل محاورات اور تشبیہات کا استعمال بھی خوب ہے۔