aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
سحاب قزلباس کا شمار پاکستان کی صف اول کی شاعرات میں ہے۔ شاعری کے علاوہ وہ عمدہ نثر نگار کے طور پر بھی جانی جاتی رہی ہیں۔ بہت خلیق اور سلیقہ شعار و سادہ مزاج خاتون تھیں۔ پیش نظر کتاب 'میرا کوئی ماضی نہیں' میں انہوں نے چند ایک ترقی پسند اردو شعرا وادبا پر خاکے قلم بند کیے ہیں جن کے مطالعے سے ایک عہد کی نہ صرف ادبی تاریخ بلکہ معاصر مشاہیر اردو ادب کے مزاج ومذاق کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
سحاب قزلباش کا نام سلطانہ قزلباش تھا۔وہ ۱۹۳۴ء میں راجستھان کی ایک سکھ ریاست جھالا واڑ میں پیدا ہوئیں ۔ان کا وطن دلی ہے ۔ ابتدائی تعلیم دلّی کوئن میری اسکول میں پائی ۔سحاب نے آنکھیں کھولیں تو گھر میں علمی وادبی فضا دیکھی ۔ بہزاد لکھنوی، حیرت دہلوی ، جگر مرادآبادی اور دوسرے شعرا کا کلام اور ان لوگوں کا ترنم بہت غور سے سنا کرتیں۔ کبھی اپنے والد کو تحت اللفظ پڑھتے سنتیں۔ اسی ماحول میں انھیں خود بھی شعر کہنے کا ذوق پیدا ہوا۔تقسیم ہند کے بعد سحاب قزلباش لاہور آگئیں۔ یہاں انھوں نے ریڈیو پاکستان ،کراچی میں مشہور ڈراما’’انارکلی‘‘ کا کردار ادا کیا جسے لوگوں نے بہت پسند کیا۔ کراچی میں مشاعروں کے علاوہ سماجی کاموں میں بھی حصہ لیا ۔ان کے گھر میں فارسی بولی جاتی تھی۔۱۹۵۸ء میں وہ لندن چلی گئیں جہاں وہ بی بی سی کی اردو سروس میں بچوں کے پروگرام کرنے لگیں۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا اور وہ مشاعروں کی کامیاب ترین شاعرہ تھیں۔ ۲۷؍جولائی ۲۰۰۴ء لندن میں انتقال کرگئیں۔ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’لفظوں کے پیرہن‘(شعری مجموعہ)، ’ بدلیاں‘(افسانے)، ’میرا کوئی ماضی نہیں‘(یادوں اور خاکوں کا مجموعہ)، ’ملکوں ملکوں شہروں شہروں‘ (سفرنامہ)۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:292
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets