Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : ابوالفطرت میر زیدی

اشاعت : 001

ناشر : ادارہ علم و فن، کراچی

مقام اشاعت : کراچی, پاکستان

زبان : Urdu

موضوعات : شاعری

ذیلی زمرہ جات : قطعہ, مجموعہ

صفحات : 91

معاون : سید تابش زیدی

مینائے فطرت
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف: تعارف

ابوالفطرت لقب، نام سیّد میر وزارت حسین زیدی، میر زیدی کے نام سے شہرت پائی، میر زیدی 10اگست 1919ء کو مظفر نگر (متحدہ ہندوستان)، یوپی کے قصبہ تسلہ میں پیدا ہوئے، اُن کے والد سیّد میر بشارت حسین زیدی، ریاست خیر پور (سندھ) میں شاعرِ دربار اور وزیر تھے۔ میر زیدی کے بچپن اور لڑکپن کا زمانہ خیر پور ہی میں گزرا۔ آدمی کا بچپن جن لوگوں اور گلیوں کے درمیان گزرتا ہے ، وہ اُن کو کبھی نہیں بھلا پاتا۔ میر زیدی کو اپنی زندگی میں مختلف مقامات، میرٹھ، لکھنؤ، دیوبند، لاہور، بھکر، نوشہرہ اور کراچی میں رہنا پڑا مگر خیرپور کی یاد کبھی اُن کے دل و دماغ سے محو نہیں ہو سکی، کیوں کہ خیرپور کی خاک میں اُن کے آبا اور عزیزوں کی ہڈیاں دفن ہیں:
باپ اور دادا کی تربت مضطرب ہوتی نہ ہو
یاد کر کے گھر میں اب چھوٹی بہن روتی نہ ہو

1940ء میں والد کی وفات کے بعد، میر زیدی خیرپور سے لاہور آگئے۔ اس کے دو برس بعد آرمی میڈیکل میں ملازمت اختیار کی اور زندگی بھر یہ زنجیر اُن کے پائوں میں پڑی رہی۔ لاہور میں قیام کے دوران انہوں نے نو عمری کے باوجود متعدد اخبارات ، ہفت روزہ رسائل اور ماہناموں کی ادارت بھی کی۔ وہ لاہور سے میرٹھ اور لکھنؤ ہوتے ہوئے دیوبند آگئے، جہاں انہوں نے مستقل سکونت اختیار کر لی۔ یہیں 1945ء میں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ دیوبند سے لاہور اور پھر نوشہرہ آگئے، جہاں ایک طویل مدّت بسر کی۔ 1980ء میں پنشن لے کر، کراچی آگئے۔ جہاں 1982ء میں تریسٹھ برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا اور وہیں مدفون ہیں۔
میر زیدی نے شعر گوئی کا آغاز 9,8 برس کی عمر میں خیرپور کے شاعرانہ ماحول میں کیا۔ سُہامجدّدی بھوپالی، علامہ تاجو رنجیب آبادی، حضرت سیماب اکبر آبادی سے مشورہ سخن کرتے رہے، اولین شعری مجموعہ’’بادئہ فطرت‘‘ کے نام سے 1938ء میں شائع ہوا۔ اُن کے احباب میں اخترؔ شیرانی، احسان دانش، ساغرؔ نظامی، پروفیسر شوکت واسطیؔ ، کلیم جلسریؔ، رئیس امروہویؔ، سیّد محمد تقیؔ اور قمر جلال آبادی، حفیظ جالندھریؔ ، جوشؔملیح آبادی اور ڈاکٹر جمیل جالبی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔
1936ء میں جب برصغیر میں ’’انجمن ترقی پسند مصنفین‘‘ کی داغ بیل پڑی تو میرزیدی ، پسماندہ افراد سے دلی ہمدردی کے سبب اِس انجمن سے وابستہ ہو گئے۔ مگر اپنے حاشیہ دینی کے سبب وہ ترقی پسند لکھنے والوں کے ساتھ ، دیر تک چل نہیں سکے۔
مری اولاد کو بس دولتِ ایمان کافی ہے
ملے میراث میں تلوار اور قرآن کافی ہے
میر زیدیؔ

مگر اس طبقہ سے ان کی ہمدردی زندگی بھر قائم رہی۔ شعر و ادب کے بارے میں اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:۔

’’ادب کسی کی جاگیر نہیں، یہ تو غریب عوام کے دل کی نکلی ہوئی درد بھری آواز ہے جس کی کڑک سے جابر زادوں کے محل، روئی کے گالوں کی طرح بیٹھتے نظر آتے ہیں۔ اس آواز کو عوام دشمن عناصر نے اپنی ناپاک سازشوں سے آج تک اُبھرنے کا موقع نہیں دیا… یہ کام ظاہرہ انقلاب کے داعی اور در پردہ پُرامن انقلاب کے دشمن سرمایہ پرستوں کے اشاروں پر اس خوبی سے انجام دیتے رہے ہیں کہ ان کا اصل مقصد کسی کی سمجھ میں نہ آسکا۔‘‘
       (’’اپنی باتیں‘‘ مسئولہ ’’میخانۂ فطرت‘‘ مطبوعہ1985ء)

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے