aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
مرزا سلامت علی دیبر اردو مرثیہ کی تاریخ کا ایک اہم اور بڑا نام ہے،مرزا دبیر نے اپنے مرثیہ نگاری کی آبیاری اور استادانہ رہنمائی کی خاطر اس عہد کے ایک شاعر میر ضمیر کی شاگردی اختیار کی ۔ اور اپنے نام کے ساتھ ساتھ استاد کا نام امر کیا۔ دبیر کے اُستاد مظفر حسین ضمیر نے مرثیہ نگاری میں نئی جان ڈال دی اور اس سلسلے میں ایک ایسا انداز اختیار کیا جو آگے چل کر بہت مقبول ہوا اور لوگ ان کی تقلید کرنے لگے ،اسی عہد میں لکھنو میں علم و ادب اور شعر و سخن کی محفل میں مر ثیہ ایک بلند مقام اور تاثیر پیدا کر چکا تھا۔" دبیر کے کلام کا خاص جوہر زورِ بیان ، شوکتِ الفاظ ، بلند تخیل ، ایجاز مضامین اور صنائع کا استعمال ہے۔ تخیل کی بلند پروازی ، علمی اصطلاحات ، عربی فقروں کی تضمین اور ایجاز مضامین کے زور میں وہ بے مثل ہیں یہ ان کی خاص مملکت ہے۔"دبیر اپنے مرثیوں میں کوشش کرتے ہیں کہ اپنے قاری کو الفاظ کی شان و شوکت ، علمی قابلیت ، تشبیہات ، استعارات کی جدت و ندرت سے مرعوب کریں ان کی اس خصوصیت کی وجہ سے مرثیوں ، میں قصید ے کا طمطراق اور شان و شکوہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مرثیے بجائے دل پر اثر کرنے کے دما غ کو متاثر کرتے ہیں۔زیر نظر کتاب میں ایس اے صدیقی نے مرثیہ کی تاریخ ، مرثیہ کی تعریف،دبیر کا عہد، دبیر کے سوانحی احوال،دبیر کی مرثیہ گوئی اور مرثیہ کے اجزائے ترکیبی کے حوالے سے تجزیہ پیش کیا ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets