aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
شیخ محمد عرفان المتخلص بہ شوکت پردیسی کی پیدائش 1924ءمیں ملیشیا میں ہوئی۔ ان کے والد شیخ صاحب علی یوں تو ضلع جونپور میں واقع موضع معروف پور کے رہنے والے تھے لیکن ان کی زندگی کا بڑا حصہ ملیشیا میں گزرا۔ تقریباً بارہ سال کی عمر میں وہ والدین کے ساتھ ہندوستان آئے۔ دو سال لکھنوکے درالعلوم ندوة العلماءمیں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ جونپور منتقل ہوگئے اور شہر کے مشن اسکول(جو اب راج کالج کے نام سے جاتا جاتا ہے) میں داخلہ لیا۔ اس نئی درسگاہ میں ان کا تعلیمی سلسلہ مڈل اسکول تک چلا لیکن اس کے بعد پھر وہ قائم نہیں رہ سکا۔ 1943ءمیں ان کا عقد حسن آرہ بیگم سے ہوا۔ وہ حافظ اختر علی کی بیٹی تھیں جن کا تعلق جونپور ضلع کے جمدہاں گاﺅں سے تھا۔ شادی کے کچھ عرصے بعد شوکت پردیسی کے والد کا انتقال ہوگیا اور گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ ان پر آگیا۔حصول معاش کے سلسلے میں کئی ناکام کوششیں کیں اور پھر ناکامیوں کے چلتے سسرال کو مسکن بنا لیا۔ لیکن گھر دامادی زیادہ دنوں تک نہیں چل سکی اور پھر 1950ءمیں عروس البلاد ممبئی کو انہوں نے اپنا نیا میدان عمل بنایا۔
قیام ممبئی کے دوران وہ روز نامہ ”انقلاب“ اور ہفتہ وار ”فلمز ٹائمس“ سے منسلک ہوئے، بچوں کا ماہنامہ”منا“ جاری کیا اور کچھ فلموں کے لےے گیت اور مکالمے بھی لکھے۔ بعد ازاں 1958ءمیں اختلاجی دوروں کا سلسلہ کچھ ایسا شروع ہوا کہ وہ مستقل طور پر صاحب فراش ہوگئے۔ ایسے میں ان کا ممبئی رہ پانا ممکن نہیں تھا۔ بالآخر ایک بار پھر وہ جمدہاں اپنی سسرال آگئے۔ بقیہ زندگی انہوں نے وہیں گزاری 1995ءمیں انہوں نے عالم برزخ کا سفر کیا۔
شوکت پردیسی کثیرالاشاعت شاعر تھے۔ بالخصوص پچھلی صدی کی پانچویں چھٹی اور ساتویں دہائیوں میں ان کی غزلوں اور نظموں کو ہندوستان کے بیشتر اردو جریدوں میں جگہ ملی۔ ان کی کل چار تصنیفات ان کے فرزندان کے ذریعے منظر عام پر آچکی ہیں۔ ”تحفت اطفال“ بچوں کی نظموں کا مجموعہ ہے۔ ”مضراب سخن“ ان کی نظموں اور گیتوں کا مجموعہ ہے۔ ”ساز نغمہ بار“ میں ان کی غزلیں، رباعیاں اور قطعات شامل ہیں۔ ن کی چوتھی کتاب”مضامین شوکت“ میں ان کی کچھ نثری تحریر میں شامل ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets