aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
معمار اردومحمد قلی قطب شاہ اردو كے پہلے صاحب دیوان شاعر ہیں۔جنھیں اردو كے "باوا آدم "ولی سے تقریبا سوسال پہلے ملك سخن و دكن پر حكومت كر نے کا شرف حاصل ہے۔ان كا كلام كئی سالوں تك پردہ خفا میں رہا۔جسے پہلی بار بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ایك تفصیلی مضمون كےذریعے رسالہ اردو میں متعارف كروایا تھاجو بعد میں ضائع ہوگیا تھا۔ا سكے بعد ڈاكٹرمحی الدین قادری زور نے سالار جنگ میوزیم كے ایك قدیم نسخہ پر مبنی متن كو مرتب كركے 1940 میں شائع كیا۔جس كے بعد اردو ادب كی تاریخ میں محمد قلی كی شاعری میں اولیت حاصل ہوگئی۔اسی سے قلی قطب شاہ كے پہلے صاحب دیوان شاعر كی حیثیت سے شہرت ملی۔اس كے بعد اسی نسخے كی تدوین ڈاكٹر سیدہ جعفر نے دوبارہ كی۔زیر نظر كتاب اسی سلسلے كی ایك اہم كڑ ی ہے جس میں ماہر لسانیات ،ماہر دكنیات پروفیسر مسعودحسین نے ہندوستانی ادب كے معمار محمد قلی قطب شاہ كے منتخبہ كلام كو مرتب كیا ہے۔جو قلی قطب شاہ كے ادبی مرتبے كے تعین میں معاون و مدگار ہے۔اس مختصر سے كتابچہ میں مرتب نے نہ صرف قلی قطب شاہ كے كلام كو شامل كیا ہے بلكہ اس كلام كے متن تك عام قاری كی رسائی كے لیے مشكل الفاظ كے معنی حواشی میں دے كر اور دكنی اردو كے قدیم الفاظ پر اعراب لگا كر یہ اہتمام كیا ہے كہ اسے آسانی اور صحت كے ساتھ باوزن طریقے پر پڑھا جاسكے۔یہ كتاب قلی قطب شاہ کے كلام كے ساتھ شخصیت و كردار ر بھی روشنی ڈالتی ہے۔جس كے مطالعے سے یہ بات واضح ہو تی ہے كہ قلی قطب شاہ یہ قادرالكلام شاعر تھا جس نے شاعری كی تقریبا ہر صنف سخن پر طبع آزمائی كی ہے۔اس كے كلام میں نظموں ،غزلوں كے ساتھ رباعیات بھی ملتی ہیں۔اس نے غزلوں كی ہئیت كوعشقیہ اور بیانیہ دونوں قسم كی شاعری كے لیے استعمال كیا ہے۔موضوع میں كہیں تسلسل ہے اور كہیں منتشر خیالات۔جہاں تك موضوعات كا تعلق ہے اس نے عید میلاد، شب معراج،بسنت،شاہی ہاتھی،كھیل ،برسات اور اپنی پیاریوں جیسے عام موضوعات پر قلم اٹھایاجس كی وجہ سے اس كی شاعری عوامی شاعری كہلائی۔جس میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت كی حقیقی عكاسی ملتی ہے۔اس كے علاوہ حمد ،نعت اور منقبت بھی شامل كتاب ہے۔پروفیسر مسعود حسین نے اپنی اس تصنیف میں قلی قطب شاہ كےكلام كا فنی اور موضوعاتی تجزیہ بھی پیش كیا ہےقلی قطب شاہ كی نظم نگاری ،غزل گوئی،زبان و بیاں كے ساتھ كلام كے محاسن و معائب پر بھی گفتگو كی ہے۔اس طرح یہ كتاب قلی قطب شاہ كے دكنی كلام كو سمجھنے میں معاون ہے۔
ممتاز محقق، نامور نقاد اور مشہور ماہر لسانیات پروفیسر مسعود حسین خاں نے اردو زبان و ادب کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ شعر و ادب کی دنیا میں ان کے کارنامے ناقابل فراموش ہیں۔
مسعود حسین خاں، وطن قائم گنج (اترپردیش) میں پیدا ہوئے اور ڈھاکہ (بنگلہ دیش) میں تعلیم کے ابتدائی مراحل طے کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم۔ اے اور پی۔ ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ مزید تعلیم کے لئے یورپ گئے اور پیرس یونیورسٹی سے لسانیات میں ڈی۔ لٹ کی ڈگری لی۔ ہندوستان واپس آ کر آل انڈیا ریڈیو سے بہ سلسلۂ ملازمت منسلک ہوگئے۔ لیکن یہ ان کا پسندیدہ مشغلہ نہیں تھا۔ اصل دلچسپی درس وتدریس سے تھی ریڈیو کی ملازمت سے سبکدوشی ہو کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں لکچرر ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں پروفیسر ہو کر حیدرآباد چلے گئے۔ پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ لسانیات میں پہلے پروفیسر و صدر کا عہدہ سنبھالا۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا (امریکہ) اور کشمیر یونیورسٹی سری نگر میں وزیٹنگ پروفیسر بھی رہے۔ 1973ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ وہاں سے سبکدوشی ہونے کے بعد جامعہ اردو علی گڑھ کے اعزازی وائس چانسلر اور علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبۂ لسانیات کے پروفیسر ایمریٹس کے عہدوں پر فائز ہوئے اور علی گڑھ میں رہائش اختیار کر کے تصنیف و تالیف میں مصروف ہوگئے۔ علمی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں ساہتیہ اکاڈمی اوارڈ 1984ء سے نوازا گیا۔
مسعود حسین خاں شاعر بھی ہیں۔ ’’روپ بنگال‘‘ اور ’’دونیم‘‘ ان کے شعری مجموعے ہیں۔ ’’روپ بنگال‘‘ کا ہندی میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ بکٹ کہانی، عاشورہ نامہ اور مثنوی کدم راؤ پدم راؤ سائنٹیفک اصولوں پر ترتیب دے کر انہوں نے قابل قدر خدمت انجام دی۔
حیدرآباد میں قیام کے دوران ’’قدیم اردو‘‘ کے نام سے انہوں نے ایک تحقیقی جریدہ جاری کیا تھا جس کا مقصد تھا جدید اصول کی بنیاد پر قدیم متون کی اشاعت۔ ایک لغت کی تیاری کا کام بھی انہوں نے انجام دیا۔ ’’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘‘ میں اقبال کی شاعری کا لسانیات کی روشنی میں مطالعہ کیا گیا ہے۔ شعر و زبان، اردو زبان و ادب اور اردو کا المیہ مضامین کے مجموعے ہیں۔ لسانیات کو یہاں بھی مرکز حیثیت حاصل ہے۔ ’’مقدمہ تاریخ زبان اردو‘‘ ان کا سب سے اہم کارنامہ ہے۔ اس میں اردو کے آغاز و ارتقا کے مسئلے پر مدلل بحث کی گئی ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets