Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : شہناز مزمل

اشاعت : 001

ناشر : اردو سخن مکتبۂ فکر و دانش، لاہور

سن اشاعت : 2019

زبان : Urdu

موضوعات : شاعری, خواتین کی تحریریں

ذیلی زمرہ جات : شاعری, کلیات

صفحات : 634

ISBN نمبر /ISSN نمبر : 978-969-7738-18-2

معاون : شہناز مزمل

منتھائے عشق
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

کتاب: تعارف

شہناز مزمل کی غزل ایک ایسے آئینہ خانے کی مثال ہے جس میں عکس در عکس جہانِ عشق کی جلوہ سامانیاں دیکھائی دیتی ہیں ، ان کے یہاں مطالعہء ذات کے مراحل طےکرتے ہوئے مجاز سے حقیقت کی طرف سفرِ عشق شروع ہو جاتا ہے ، شہناز مزمّل نے آغاز میں جس معیار کی شاعری کی اس کی مثال علامہ اقبال کے یہاں بانگ درا کی ابتدائی غزلوں میں نظر آتی ہے، جو داغ دہلوی کے تتبع میں کہی گئیں ، اس طرح آغاز شباب میں ان کے دو شعری مجموعے "پیامِ نو " اور"جراتِ اظہار" شائع ہوئے۔ زیر نظر کتاب"منتہائے عشق" شہناز مزمل کی غزلوں کی کلیات ہے۔ ان کی غزلوں میں لطافتوں اور حکایتوں کی ایسی درخشندہ کہکشائیں ہیں جن میں ستاروں کی تنک تابی ہمیں ایک خواب کی صورت دکھائی دیتی ہیں ، ان کے یہاں غزل کے ان گنت موضوعات ہیں ، بس قطرے میں سمندر اور ذرّہ خاک میں خورشید کا منظر دیکھنے کی خاطر چشمِ دل کو وا رکھنے کی ضرورت رہتی ہے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

شہناز مزمل ایک قابلِ قدر شاعرہ ہیں۔ گو شاعری ورثہ میں ملی، گھر کے ماحول سے شعری مزاج کی تربیت ملی۔ والد حشر القادری صاحب ایک قادر الکلام شاعر تھے لیکن اس شعری مزاج میں شہناز صاحبہ کے مزاج کی انفرادیت ملتی ہے۔ وہ دراصل لوحِ دل پر وارد ہو رہے ہیں۔ ان کے اشعار میں علم کی گہرائی، پختہ لہجہ لیکن اسلوب انتہائی سادہ ،فلسفہ بھرنے کی کوشش نہیں کرتیں بلکہ تجربات اور مشاہدہ خود بخود اشعار میں عیاں ہوئے جاتے ہیں۔

زندگی سے کیا ڈرنا آگہی سے ڈرتی ہوں

تیرگی کے موسم میں روشنی سے ڈرتی ہوں

پتھروں کی بستی میں آئینے اٹھا لائی

کانچ کانچ جذبوں کی نازکی سے ڈرتی ہوں

بہت کم خواتین کاکتاب سے اتنا گہرا تعلق دیکھنے میں آتا ہے اور شادی شدہ زندگی کے ساتھ ساتھ اپنا علمی سفر جاری رکھنا، ایک انتہائی مشکل عمل ہے۔ دوست احباب میں مسز کتاب کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ اس بات میں سچائی اس طرح دکھائی دیتی ہے کہ پندرہ شعری مجموعے چھپ چکے ہیں اور سات نثری کتب پانچ کتابیں زیر طبع ہیں:

(۱)نورِ کل(۲)بعد تیرے(۳)قرضِ وفا(۴)عشق تماشا(۵)میرے خواب ادھورے ہیں(۶)جادۂ عرفان(۷)موم کے سائبان(۸)عکس دیوار پہ تصویر(۹)جرأت اظہار(۱۰)جذب و حرف(۱۱)پیامِ نو(۱۲)شہناز مزمل کے منتخب اشعار(۱۳)عشق دا دیوا(۱۴)کھلتی کلیاں مہکے پھول(بچوں کی نظمیں)(۱۵)عشق سمندر۔

مطبوعہ نثری کتب

(۱)کتابیات اقبال(۲)کتابیات مقالہ جات(۳) لائبریریوں کا شہر لاہور(۴)فروغ مطالعہ کے بنیادی کردار (۵)عکسِ خیال(۶)دوستی کا سفر(سفر نامہ)(۷)نماز (بچوں کے لیے)

شہناز مزمل صاحبہ ایک ادبی پروگرام ’’ادب سرائے ‘‘کے نام سے اپنی رہائش گاہ پر کرتی ہیں۔ اس پروگرام میں نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور بڑی بڑی ادبی شخصیات اس پروگرام میں حصہ لیتی ہیں اسی کے ساتھ ساتھ ماڈل ٹاؤن لائبریری کی منتظم کے فرائض انجام دئیے قائد اعظم لائبریری کی منتظمِ اعلیٰ کے فرائض بھی انجام دئیے۔ محترمہ کو گولڈن جوبلی سال کے موقع پر تیئس ۲۳ مارچ کو Puna  نے سلمیٰ تصدق ایوارڈ تین پاکستانی خواتین کو دیا ان میں ایک نام شہناز مزمل صاحبہ کا ہے۔

شہناز مزمل کی شاعری متوازن اور خوبصورت الفاظ اور جذبے کا امتزاج ہے بلکہ ان کی شخصیت اور اندازِ گفتگو اپنی تحریر کی مانند ستھرا اور پاکیزہ ہے۔ عملی طور پر تو دکھ درد بانٹنے والی ہیں اُن کے شعر بھی لوگوں کے غموں کا مداوا کرتے ہیں۔ تخلیق کو اعلیٰ مقام پر لے جانے کے لیے اپنی شخصیت کی تحلیلِ نفسی اختیار کرنا ہے۔ اعلیٰ شاعری تب ہی وجود میں آتی ہے جب آپ اپنی ذات کا احتساب کرتے ہیں:

سبز رُت میں گلاب جھلسے ہیں

بیتے موسم کا زخم گہرا ہے

ایک شاعر یا تخلیق کار ذہنی طور پر عام انسان سے مختلف ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی طورمعاشرے کی روح کی مضبوطی چاہتے ہیں اور اخلاقی اقدار کو معاشرے کی روح جانتے ہوئے ان کو معاشرے میں زندہ رکھنے کے خواہاں ہوتے ہیں اور سماجی انحطاط اور سماجی بیماریوں کی نشاندہی اور تحریر سے کرتے ہیں اور لوگوں کے ذہن میں تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ آپ کی شاعری میں جگنو کا ذکر ملتا ہے۔ جگنو اندھیروں میں امید کا پیغام دیتے ہیں آپ کی شاعری ہمت کا سبق دیتی ہوئی شاعری ہے۔

دمِ رخصت اسے جینے کی دعا دی ہم نے

اور پھر آخری کشتی بھی جلا دی ہم نے

فکر ومشاہدہ کی گہرائی شعور کو روشن کرتی ہے اور شاعری میں جب تک کوئی پیغام نہ ہو شاعر کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ وہ انسانیت سے محبت کرنے والی اور آپ بیتی کو جگ بیتی بنانے والی شاعرہ ہے۔مستقبل کی خوبصورت آس اور زمانے کی پیش رفت کے ساتھ بدلتے اذہان و خیالات کا ادراک رکھتی ہے۔ زمانے کے دکھ کو ذاتی سمجھ کر شاعری میں سمو دیا۔

ایک خاتون کی حیثیت سے اگر اپنی شاعری میں حقوقِ نسواں کی بات نہ کریں کیسے ممکن ہے بلکہ وہ تو وکالت کرتی ہیں:

دام میں یوں الجھا لیتے ہیں اپنی شام سجا لیتے ہیں

عورت کو عورت ہونے کی اتنی سخت سزا دیتے ہیں

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے