aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
غلام ربانی تاباں کا شمار ممتاز ترقی پسند شعرا میں ہوتا ہے۔ انہوں نے نہ صرف شاعری کی سطح پر ترقی پسند فکراور نظریے کو عام کرنے کی کوشش کی بلکہ اس کیلئے عملی سطح پر بھی زندگی بھر جد وجہد کرتے رہے ۔ تاباں کی پیدائش ۱۵ فروری ۱۹۱۴ کو قائم گنج ضلع فرخ آباد میں ہوئی ۔ آگرہ کالج سے ایل ایل بی کی ، کچھ عرصہ وکالت کے پیشے سے وابستہ رہے لیکن شاعرانہ مزاج نے انہیں دیر تک اس پیشے میں نہیں رہنے دیا ۔ وکالت چھوڑ کر دہلی آگئے اور مکتبہ جامعہ سے وابستہ ہوگئے اور ایک لمبے عرصے تک مکتبے کے جنرل مینیجر کے طور پر کام کرتے رہے ۔
تاباں کی شاعری کی نمایاں شناخت اس کا کلاسیکی اور ترقی پسندانہ فکری وتخلیقی عناصر سے گندھا ہونا ہے ۔ ان کے یہاں خالص فکری اور انقلابی سروکاروں کے باجود بھی ایک خاص قسم تخلیقی چمک نظر آتی ہے جس ترقی پسند فکر کے تحت کی گئی شاعری کا بیشتر حصہ محروم نظر آتا ہے ۔ تاباں نے ابتدا میں دوسرے ترقی پسند شعرا کی طرح صرف نظمیں لکھیں لیکن وہ اپنے پہلے شعری مجموعے’ سازلرزاں ‘(۱۹۵۰) کی اشاعت کے بعد صرف غزلیں کہنے لگے ۔ ان کی غزلوں کے متعدد مجموعے شائع ہوئے ۔ جن میں ’ حدیث دل ‘ ’ ذوق سفر ‘ ’ نوائے آوارہ ‘ اور ’ غبار منزل ‘ شامل ہیں ۔ تاباں نے شاعری کے علاوہ اپنی فکر کو عام کرنے کیلئے صحافیانہ نوعیت سیاسی ، سماجی اور تہذیبی مسائل پر مضامین بھی لکھے اور ترجمے بھی کئے ۔ ان کے مضامین کا مجموعہ ’ شعریات سے سیاسیات تک ‘ کے نام سے شائع ہوا ۔
تاباں کوان کی زندگی میں بہت سے انعامات واعزات سے بھی نوازا گیا ۔ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ، سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ ، یوپی اردو اکادمی ایوارڈ اور کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ کے علاوہ پدم شری کے اعزاز سے بھی نوازا گیا ۔ پدم شری کا اعزاز تاباں نے ملک میں بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے واپس کردیا تھا ۔
۷ فروری ۱۹۹۳ کو تاباں کا انتقال ہوا ۔
نام سید احتشام حسین رضوی، پروفیسر۔۲۱؍اپریل ۱۹۱۲ء کو اترڈیہہ ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم برائے شرفا اور رؤسا کے دستور کے مطابق مکتب میں ہوئی۔ انگریزی تعلیم کی ابتدا علی گڑھ سے ہوئی۔ ہر درجے میں انعام ملتا رہا۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد الہ آباد آگئے۔ ۱۹۳۶ء میں الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے(اردو) اس امتیاز کے ساتھ پاس کیا کہ پوری یونیورسٹی میں اوّل آئے۔ وہ ادیب، نقّاد، مترجم کے علاوہ شاعر بھی تھے۔ الہ آباد یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے صدر رہے۔ یکم دسمبر۱۹۷۲ء کو الہ آباد میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے چند نام یہ ہیں: ’’اردو ادب کی تنقیدی تاریخ‘‘، ’’اردو لسانیات کا خاکہ‘‘ ، ’’تنقیدی جائزے‘‘، ’’تنقیدی نظریات‘‘، ’’تنقید اور عملی تنقید‘‘، ’’راویت اور بغاوت‘‘، ’’روشنی کے دریچے‘‘، ’’ہندوستانی لسانیات کا خاکہ‘‘، ’’ادب اورسماج‘‘۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:35
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets