aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
قلندر بخش جرات فطری شاعر تھے۔جنھوں نے اردو غزل میں رندی ،سر مستی اور خواہش پرستی کی حقیقی تصاویر پیش کیں ہیں۔ان کے یہاں عشق کا بیان زیادہ ہے۔ زبان بھی صاف ستھری ،محاورات اور بندش الفاظ بھی خوب ہے۔اردو شاعری کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔پیش نظر "منتخب دیوان جرات" ہے۔ جس میں جرات کی شوخی ،سر مستی اور عشق و عاشقی کے احساسات و جذبات نمایاں ہیں۔ اس نسخہ میں ایک مثنوی گلدستہ مسرت بھی چسپاں ہے جو منشی عطا علی خاک کی ہے۔
آنکھ لگتی نہیں جرأتؔ مری اب ساری رات
آنکھ لگتے ہی یہ کیسا مجھے آزار لگا
جرأت کی شاعری کو میر تقی میر نے چوما چاٹی اور مصحفی نے "چھنالے کی شاعری" کہا تھا لیکن یہ تحقیری اور اہانت آمیز کلمات اگر ایک طرف ان دو بڑے شاعروں کی جھنجلاہٹ کا پتا دیتے ہیں تو دوسری طرف جرأت کی شاعری کے انداز کی طرف بھی لطیف اشارہ کرتے ہیں۔ جرأت، میر اور مصحفی کے ہوتے ہوئے، مشاعروں میں ان دونوں سے زیادہ داد حاصل کرتے تھے۔ میر اور مصحفی اپنے ساتھ رنج و الم کی دہلوی روایت ساتھ لائے تھے جبکہ لکھنؤ کا نقشہ بدلا ہوا تھا اور وہ لکھنوی شاعری کا ساتھ دینے سے قاصر تھے۔ لکھنؤ اس وقت بزم عیش و نشاط بنا ہوا تھا جہاں معشوق کی جدائی میں رونے اور آہیں بھرنے کے مضامین طبع نازک پر گراں تھے۔ اہلِ لکھنؤ تو معشوق کے ناز و ادا سے محظوظ ہونے، معشوق کے جسم کو چھونے اور محسوس کرنے کے خواہش مند تھے اور ایسی ہی شاعری پسند کرتے تھے جس میں ان کی خواہشات اور ان کے جذبات کی عکاسی ہو۔ جرأت ان کو یہی سب دیتے اور مشاعرے لُوٹ لیتے تھے۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ان کا دیوان ہر وقت نواب آصف الدولہ کے سرہانے رکھا رہتا تھا۔
جرأت کا معروف نام قلندر بخش، لیکن ان کا اصل نام یحییٰ امان تھا۔ ان کے والد حافظ امان کہلاتے تھے۔ غالباً امان کا لاحقہ ان کے بزرگوں کے نام کے ساتھ، بطور خطاب عہد اکبری سے چلا آتا تھا۔ ان کے دادا کے نام پر کوچہ رائے امان دہلی کے چاندنی چوک علاقہ میں ابھی تک موجود ہے۔ وہ عہد محمد شاہی میں سرکاری عہدیدار تھے جنہوں نے نادر شاہ کے لشکریوں کے ہاتھوں گرفتار ہو کر بہادری سے جان دی تھی۔ جرأت کی صحیح تاریخ پیدائش معلوم نہیں لیکن اغلب قیاس ہے کہ وہ 1748ء میں پیدا ہوئے۔ دہلی میں جاٹوں کی ہلڑ بازی اور پھر ابدالی کے حملوں کے باعث جوغارتگری ہوئی اس نے وہاں کے شرفاء کو دہلی چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ جرأت کا خاندان بھی فیض آباد چلا گیا اور ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت وہیں ہوئی۔ لیکن ان کی تعلیم بس واجبی رہی۔ اپنے وقت کے معیار کے لحاظ سے وہ اسے مکمل نہیں کر سکے پھر بھی ان کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ فارسی زبان اورعلم طب، عروض و قواعد اور فن شعر سے بخوبی واقف تھے۔ فیض آباد میں ہی شاعری کا شوق پیدا ہوا، وہ جعفر علی حسرت کے شاگرد ہو گئے اور اس قدر مشق اور پختگی بہم پہنچائی کہ استاد سے آگے نکل گئے۔ میر حسن کے بقول ان کو شاعری کا اتنا شوق تھا کہ وہ ہر وقت اسی میں گم ر رہتے تھے۔ ابتدا میں انہوں نے اپنے استاد بھائی، بریلی کے نواب محبت خان کی مصاحبت اختیار کی جن کی سرپرستی میں ان کی گزر اوقات ہوتی تھی۔ پھرجب اوودھ کا دارالخلافہ لکھنؤ منتقل ہوا تو وہ بھی لکھنؤ آ گئے اور شہزادہ سلیمان شکوہ کے ملازم ہو گئے۔ مصحفی اور انشا بھی ان کے دربار سے وابستہ تھے۔ جرأت کو علم نجوم سے بھی دلچسپی تھی اور اہل لکھنؤ اس علم میں ان کے معترف تھے۔ اس کے علاوہ ان کو موسیقی سے بھی شغف تھا، اور ستار بجانے میں ماہر تھے۔ جوانی میں ہی ان کو موتیا بند کی شکایت ہو گئی تھی، جس سے دھیرے دھیرے ان کی بصارت زائل ہو گئی۔ ان پر یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ پردہ نشین گھرانوں میں بلا تکلف جانے کے لئے وہ شوققیہ اندھے بن گئے تھے۔
جرأت سیرت و کردار کے اعتبار سے مرنجاں مرنج، خوش خلق نیک خو اور رقیق القلب انسان تھے۔ نوا اور مصحفی کے ساتھ ان کے معرکے ہوئے۔ ظہور اللہ نوا بدایوں کے اک شاعر تھے، جو اپنی استادی چمکانے لکھنؤ آ گئے تھے وہ جرأت کے ایک مصرعے "حضور بلبل بستاں کرے نوا سنجی" پر بھڑک اٹھے، اور جرأت کی ہجو کہی جس میں ان پر رکیک حملے کئے گئے تھے "کور، بے ایماں، حرامی سخت قرّم ساق ہے" اس پر جرأت کے شاگرد ان کے قتل کے درپے ہو گئے تھے، لیکن معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ مصحفی کے معاملہ میں جرأت کے اک شناسا نے، جن کو اساتذہ کا کلام جمع کرنے کا شوق تھا، مصحفی کے تذکرہ سے آصف الدولہ کا ترجمہ سرقہ کر لیا تھا جسے مصحفی جرأت کی سازش سمجھتے تھے اور ان سے خواہ مخواہ ناراض ہو گئے تھے، لیکن دونوں معاملوں میں انہوں نے کوئی کینہ دل میں نہیں رکھا اور کہا "رنجشیں ایسی ہزار آپس میں ہوتی ہیں دلا*وہ اگر تجھ سے خفا ہے، تو ہی جا، مل، کیا ہوا"۔ بصارت سے محروم ہونے کے باوجود دوستوں سے ملاقات کے لئے دور دور تک چلے جاتے تھے۔ اپنے مزاج کی وجہ سے خواص و عوام میں یکساں مقبول تھے۔ ان کے بے شمار شاگرد تھے۔
جرأت میں شعر گوئی کا ملکہ فطری تھا جسے لکھنؤ کے امراء اور اربابِ نشاط کی صحبتوں نے اور چمکا دیا تھا۔ انھوں نے اردو غزل میں رندی، سرمستی، اور خواہش پرستی کی جیتی جاگتی تصویریں کھینچ کر اک جدا گانہ رنگ پیدا کیا۔ اسی بناء پر میر ان کے کلام کو نا پسند کرتے تھے۔ دوسری طرف جرأت طرز میر کے مدّاح تھے۔ اور میر کے ہی سادہ بے تکلف انداز پر اپنی شوخی کا غازہ ملتے تھے۔ یہ جرأت کے ماحول اور ان کے اپنے مزاج کا تقاضا تھا کہ ان کے یہاں عشق کے بیان میں کیفیت کی جگہ واردات نے لے لی اور انہوں نے اس طرح خارجیت کے رنگ کو بہ انداز خاص چمکایا جسے وقوع گوئی کا نام دیا جاتا ہے۔ انہوں نے جذبات و واقعات کی جو تصویریں کھینچی ہیں ان کے نفسانی ہونے میں شبہ نہیں لیکن یہ تصویریں خیالی نہیں بلکہ حقیقت کے عین مطابق ہیں۔ انہوں نےعشق وعاشقی کے معاملات کو جس شوخی، تفصیل اور وضاحت سے بیان کیا وہی آگے چل کر لکھنؤ کے دبستان شاعری کا طرّۂ امتیاز ٹھہرا۔
جرأت کا کلام زبان کے اعتبار سے صاف و شستہ ہے، بندش چست ہے اور محاورے کو کہیں ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ مسلسل غزلیں کہنا اور غزل در غزل کہنا ان کی اک اور خوبی ہے جس نے ان کو استاد کا درجہ دے دیا، وہ اپنی کم علمی اور فن کے اصول و قواعد سے مبیّنہ لاعلمی کے باوجود انشاء اور مصحفی جیسے استادوں سے کبھی نہیں دبے۔ جرأت نے ایک ضخیم کلیات اور دو مثنویاں چھوڑی ہیں۔ کلیات میں غزلیں، رباعیات، فردیات، مخمسات، مسدسات، ہفت بند، ترجیع بند، واسوخت، گیت، ہجویات، مرثیے، سلام، فالنامے وغیرہ سب موجود ہیں۔ ایک مثنوی برسات کی ہجو میں ہے اور دوسری حسن وعشق ہے جس میں خواجہ حسن اور بخشی طوائف کا قصّہ بیان ہوا ہے۔ ان کے تین بیٹوں اور ایک بیٹی کا تذکرہ ملتا ہے۔ لاتعداد شاگردوں میں شاہ رؤف احمد سرہندی، مرزا قاسم علی مشہدی، غضنفرعلی لکھنوی، چاہ حسین حقیقت اور تصدق حسین شوکت صاحب دیوان تھے۔ جرأت نے 1809 ء میں وفات پائی۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets