aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
جیمز جوائس ناول نگار، افسانہ نویس اور شاعر ہی نہیں ادبی نقاد بھی تھا۔ اس نے مغربی ادب میں ’’جدیدیت‘‘ کی تحریک میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔ 13 جنوری 1941ء کو جیمز جوائس چل بسا تھا۔ آئرلینڈ کے شہر ڈبلن کے ایک متمول خاندان میں جیمز جوائس نے سنہ 1882ء میں آنکھ کھولی۔ وہ ایک ذہین طالبِ علم رہا۔ لیکن فرانس میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم مکمل نہیں کرسکا۔ اس کا بچپن اور جوانی کا ابتدائی زمانہ آسودہ حالی اور راحت کے ساتھ گزرا لیکن بعد میں زندگی اس کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوئی۔ ایک سے زائد شادیوں کے علاوہ بیٹی کی بیماری اور دوسرے مسائل نے جیمز جوائس کو ذہنی کوفت اور اذیت میں مبتلا رکھا لیکن بطور ناول نگار اس کی شہرت اور مقبولیت بھی اسی زمانہ میں اس کی ایک کام یابی تھی۔ جیمز جوائس آئرش زبان کا سب سے مقبول ادیب کہلایا اور اس کی کتابوں کے تراجم دنیا کی بڑی زبانوں میں کیے گئے۔
جیمز جوائس کی پہلی کتاب ’’ڈبلنرز‘‘ افسانوں کا مجموعہ تھی۔ اس کے بعد تین ناول ’’اے پورٹریٹ آف دی آرٹسٹ ایز ینگ مین‘‘ اور ’’فنیگینز ویک‘‘ سامنے آئے اور پھر ’’یولیسس‘‘ کی اشاعت نے جیمز جوائس کی شہرت میں اضافہ کیا۔ شاعری کی بات کریں تو جیمز جوائس نے چار شعری مجموعے یادگار چھوڑے۔ اس کی نظموں کا مجموعہ 1907ء میں شایع ہوا تھا جب کہ ’’یولیسس‘‘ (Ulysses) کی اشاعت 1922ء میں پیرس میں ہوئی۔ اسے یہ نام ’’ہومر‘‘ کی طویل نظم ’’اوڈیسی‘‘ کے ایک کردار سے متاثر ہوکر دیا گیا تھا۔ ناول کی اشاعت کے بعد جیمز جوئس پر الزامات کی بھرمار ہوگئی۔ امریکا اور برطانیہ میں اس پر پابندی عائد کردی گئی۔ برطانیہ میں 1936 تک جمیز جوئس کے کام کی اشاعت ممنوع تھی۔ اس ناول میں جنسی تعلقات ہی نہیں گالیوں اور ہیجان انگیز باتوں کے علاوہ کچھ کراہت آمیز منظر پڑھنے کو ملتے ہیں جن کا تعلق بیتُ الخلا یا نجی زندگی سے ہوسکتا ہے۔ ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ جب مصنّف کو معاشرہ اور ادبی دنیا میں بھی الزامات کا سامنا تھا، تو سوئٹزر لینڈ کے مشہور ماہرِ نفسیات نے اسے ایک حوصلہ افزا اور توصیفی خط لکھا۔ یہ ماہرِ نفسیات کارل گستاؤ ژونگ تھے۔ ان کا یہ خط بہت مشہور ہوا.