aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"نیرنگ خیال "محمد حسین آزاد کے انشائیوں کا مجموعہ ہے۔جس کے دو حصے ہیں۔ماہرین کے مطابق یہ انشائیے انگریزی مضامین کے ترجمے ہیں۔خود آزاد نے بھی اس بات کا اعتراف کیا تھاکہ انھوں نے انگریزی مضامین سے متاثر ہوکر انشائیے تحریر کیے تھے۔لیکن ان ترجموں میں آزاد نے اپنی ذہانت اور سحر بیانی سے اتنا ردو بدل کردیا ہے کہ طبع زاد معلوم ہوتے ہیں۔آزاد کے انشائیوں کی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے اس میں تمثیلی انداز اپنایاہے۔غیرمجرد اشیا اور صفات کو مجسم کرتے ہوئے اشخاص کی صورت میں پیش کیا ہے۔ان انشائیوں میں ڈرامائیت بھی ہے اور قصہ گوئی بھی۔تمثیل نگاری کی ایک اہم کڑی مکالمہ ہے کبھی تو بے جان چیزیں مجسم ہو کر باتیں شروع کردیتی ہیں اور کہیں راوی بن کر فطرت سے محو گفتگو نظر آتے ہیں۔اسی تمثیل نگاری اور مکالموں کی وجہ سے ان مضامین میں ڈرامائی کیفیت بھی پیدا ہوگئی ہے۔جو قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث بن جاتی ہیں۔ دلکش ،شگفتہ انداز بیاں ،اسلوب میں شاعرانہ تخیل اور شاعرانہ انداز کی چمک دمک ہر مضمون میں نمایاں ہے۔ ان کی زبان تشبیہ ،استعارہ اور خوبصورت الفاظ سے سجی قاری کو عالم تخیل کی ایسی سیر کراتی ہے کہ قاری اسی رنگین فضا میں گم ہوجاتا ہے۔ موضوع کے اعتبار سے انشائیوں پر اخلاقیات کا درس حاوی ہے ۔کیوں کہ آزاد قوم کی حالات میں بہتری کے خواہاں تھے۔اسی لیے ان کے انشائیوں میں خیال کی عظمت اور اخلاقی نقطہ نظر غالب ہے ۔جس کوانھوں نے رمز و کنایہ اور استعاروں کے ذریعے موثر انداز میں پیش کیا ہے۔نیرنگ خیال کے تمام مضامین میں "شہر عام اور بقائے دوام کا دربار" اہمیت کا حامل ہے جس میں مصنف نے مختصر پیرائیہ میں مختلف شخصیتوں جیسے نظامی ،سعدی اورنگ زیب،غالب وغیرہ کے خاکے پیش کیے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں دونوں حصے شامل ہیں۔
اردو ادب میں ایک ایسی شخصیت بھی ہے جس نے دیوانگی اور جنون کی کیفیت میں بھی وہ کارنامے انجام دیے ہیں کہ عالم فرزانگی میں بہت سے لوگ اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس نے نہ صرف اردو نژ کو نیا انداز دیا بلکہ اردو نظم کو بھی ایک نئی شکل و صورت عطا کی۔ اسی شخص نے نئی تنقید کی شمع روشن کی۔ موضوعی مشاعرے کی بنیاد ڈالی، مجلسی تنقید کی روایت کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے اردو زبان کی پیدائش کا نظریہ پیش کیا اور برج بھاشا کو اردو زبان کا منبع و ماخذ قرار دیا۔ جس نے اردو کے فروغ کے لیے بدیسی زبانوں خاص طور پر انگریزی سے استفادہ پر زور دیا۔ اس نے اردو شاعری کے مزاج کو بدلا اور مقصدیت، افادیت سے اس کا رشتہ جو ڑا۔ جس نے ادبی تاریخ نویسی کو ایک نئی جہت دی۔ اور ’’آب حیات‘‘ کے عنوان سے ایک ایسی تاریخ لکھی کہ اس کی ابدی زندگی کی ضمانت بن گئی۔ اس گراں مایہ شخصیت کا نام محمد حسین آزادؔ ہے۔
محمد حسین ؔ آزادؔ کی پیدایش 5، مئی 1830 عیسوی کو دہلی میں ہوئی ان کے والد مولوی محمد باقر شمالی ہند کے پہلے اردو اخبار ’’دہلی اردو اخبار‘‘ کے مدیر تھے۔ ان کا اپنا پریس تھا۔ اپنا ا’مام باڑہ‘ مسجد اور سرائے تھی۔ یہ اردو کے پہلے شہید صحافی تھے۔ انہیں مسٹر ٹیلر کے قتل کے الزام میں پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔ مولوی محمد حسین آزاد جب چار برس کے تھے سبھی ان کے ایرانی النسل والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ ان کی پھوپی نے پرورش کی، وہ بھی بہت جلد انتقال کر گئیں۔ محمد حسین آزاد کے ذہن پر ان صدموں کا گہرا اثر پڑا۔
آزاد ؔ دلی کالج میں تعلیم حاصل کر رہے تھے کہ ملک کے حالات بگڑنے لگے اپنے والد مولوی محمد باقر کی گرفتاری کے بعد سے ہی محمد حسین آزاد کی حالت اور خراب ہونے لگی۔ وہ ادھر ادھر چھپتے چھپاتے رہے۔ تقریباً دو ڈھائی برس بڑی مشقتوں سے کاٹے۔ کچھ دنوں اپنے کنبہ کے ساتھ لکھنؤ میں بھی رہے۔ پھر کسی طرح لاہور وارد ہوئے جہاں جنرل پوسٹ آفس لاہور میں سرنوشت دار کے عہدے پر ان کی تقرری ہو گئی۔ تین سال کام کرنے کے بعد ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن کے دفتر میں انہیں ملازمت مل گئی۔ اس کے بعد جب’ انجمن پنجاب‘ کا قیام عمل میں آیا تو محمد حسین آزاد کی قسمت کے دروازے کھل گئے۔ ڈاکٹر لاءئنز کی کوششوں اور محبتوں کی وجہ سے آزادؔ انجمن پنجاب کے سکریٹری مقرر کر دیے گئے۔ یہاں ان کی صلاحیتوں کو ابھرنے کا بھرپور موقع ملا۔ انجمن پنجاب کے پلیٹ فارم سے انہوں نے بڑے اہم کارنامے انجام دیے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں عربی پروفیسر کی حیثیت سے ان کی عارضی تقرری ہو گئی اور پھر اسی عہدے پر مستقل کر دے گئے۔
ایک اچھی ملازمت سے وابستگی نے آزادؔ کو ذہنی سکون عطا کیا۔ اور پھر ان کے سفر کا سلسلہ شروع ہوا۔ انہوں نے وسط ایشیا کا سفر کیا، وہاں انہیں بہت کچھ نیا سیکھنے اور سمجھنے کو ملا۔ سیاحت نے ان کے ذہنی افق کو بہت وسعت بخشی۔ انہوں نے اپنے سفر کے مشاہدات اور تجربات کو قلم بند بھی کیا۔ ’سیر ایران‘ ان کا ایساہی ایک سفرنامہ ہے جس میں خواجہ حافظ اور شیخ سعدی کے پیارے وطن کے بارے میں اپنی تلخ اور شیرین یادوں کہ جمع کر دیا ہے۔
محمد حسین آزادؔ نے اردو دنیا کو بہت گران قدر تصنیفات دی ہیں۔ ان میں سخن داں فارسی، قصص ہند، دربار اکبری، نگارستان فارس، سیر ایران، دیوان ذوقؔ اور نیرگ خیال کافی اہم ہیں۔ ان کے علاوہ نصابی کتابوں میں اردو کی پہلی کتاب، اردو کی دوسری کتاب، اردو کی تیسری کتاب، قواعد اردو اہمیت کی حامل ہیں۔ مگر محمد حسین آزادؔ کو سب سے زیادہ شہرت ’آب حیات‘ سے ملی کہ یہ واحد ایسی کتاب ہے جس میں اردو شاعری کی صرف تاریخ یا تذکرہ نہیں ہے بلکہ اہم لسانی مباحث بھی ہیں اس میں اردو زبان کے آغاز و ارتقا پر بحث ہے۔ اس کتاب نے اردو تنقید کو نقش اول بھی عطا کیا ہے۔ اس میں قدیم تذکروں کے مروجہ انداز سے انحراف کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ نثر کا اعلیٰ نمونہ بھی ہے۔
آزادؔ ایک اہم انشاپرداز، ناقد اور محقق بھی تھے انہوں نے زبان اردو کی تاریخ اور نشو ونما، اصلیت زبان پر تحقیقی مضامین بھی لکھے ۔
محمد حسین آزاد نظم کے اولین شاعروں میں بھی ہیں جنہوں نے صرف نظمیں لکھیں بلکہ نظم نگاری کو ایک نئی جہت بھی عطا کی اردو نثر اور نظم کو نیا مزاج عطا کرنے والے محمد حسین آزاد پر آخری وقت میں جنون اور دیوانگی کی کیفیت طاری ہو گئی تھی۔ جنون کی حالت میں ہی ان کی شریک حیات کا انتقال ہو گیا۔ اس کی وجہ سے آزادؔ کا اضمحلال اور بڑھتا گیا۔ آخر کار ۲۲؍ جنوری ۱۹۱۰ عیسوی میں آزاد ۹۶ سال کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئے۔ ان کا مزار داتا گنج کے قریب ہے۔
محمد حسین آزادؔ نے اپنی زندگی کا سفر انگریزوں کی مخالفت سے شروع کیا تھا۔ وہ اپنے والد کے اخبار میں انگریزوں کے خلاف سخت مضامین لکھتے رہتے تھے۔ مخالفت کی پاداش میں جب انگریزوں نے ان کے والد کو موت کے کھاٹ اتار دیا وہیں زاویہ تقرری تبدیلی کی وجہ سے علم دوست انگریزوں نے محمد حسین آزادؔ کو حیات جاودانی عطا کر دی اور انہیں شمس العلماکا خطاب بھی عطا کیا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets