aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"نقشِ حیات"مولانا حسین احمد مدنی کی لکھی ہوئی خود نوشت سوانح حیات ہے۔ مولانا نے اس کتاب میں اپنے فن کی خاص رعایت کی ہے، اپنے تعلق سے لکھتے وقت ان نکات واحوال کو خصوصی طور پر مدنظر رکھا ہے، جو قاری کی نگاہ میں غیرمعمولی اہمیت رکھتے ہیں آپ کے قلم کی روش مکمل طورپر فن کی مقتضیات کو پورا کرتی ہے، آپ کہیں بھی یہ وہم نہ ہونے دیتے کہ سوانح نگار اپنے وقت کا ایک زبردست عالم، محدث، مرشد اور مجاہد ہے،بلکہ آپ اپنے کو ایک عام آدمی کی طرح پیش کرتے ہیں، جس کی زندگی کا آغاز ایسے ہی ہوا، جیسے کہ دیگر لوگوں کی زندگی کی شروعات ہوتی ہے۔"نقشِ حیات" میں کہیں بھی کسی قسم کی پیچیدگی، اٹکاؤ اور الجھاؤ نہیں ہے، مولانا اپنی عملی زندگی میں خواہ شخصی ہو یا معاشرتی، جس طرح اجلے کیریکٹر اور شفاف وواضح کردار کے انسان تھے، ان کی زندگی کا ہرگوشہ ہر زاویے سے کھلی کتاب کی مانند تھا، جسے ہر شخص بہ آسانی محسوس کرسکتا تھا، اسی طرح ان کی تحریریں بھی اپنے مظاہر اور معنویت کے اعتبار سے بالکل واضح ہیں، انھوں نے جس مسئلے پر بھی قلم اٹھایا ہے، پوری باریک بینی، ژرف نگاہی کے ساتھ اٹھایا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے عمل وکردار کی طرح ان کی نگارشات میں بھی بھرپور سادگی اور وضاحت ہے۔ "نقشِ حیات" کا ایک اوراہم گوشہ یہ ہے کہ مولانا نے اس میں پیش کیے گئے ہر واقعے کو دلائل، شواہد اور مستند اعداد وشمار سے مبرہن کیا ہے۔ نقش حیات اپنے وقت کے ایک عظیم عالم ومحدث، تحریک آزادی کے کفن بردوش مجاہد اور شب زندہ دار زاہد کی سیرحاصل داستانِ حیات بھی ہے، جو انتہائی سادگی کے ساتھ بیان کی گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ بیسویں صدی کے ہندوستان کے سیاسی ومعاشرتی نشیب وفراز کی سچی اورحقیقت نما تصویر بھی۔ یہ کتاب اپنے آپ میں غیرمعمولی اہمیت رکھتی ہے، یہ صرف مولانا کی سوانح ہی نہیں، بلکہ اس وقت کی عالمی سیاست میں برپا ہونے والے ہیجانات کا علمی، منطقی وتاریخی تجزیہ بھی ہے۔ زیر نظر جلد اول ہے۔