aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو ادب کی شعری تاریخ میں جوش ملیح آبادی نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ اردو کے نامور محقق خلیق انجم نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ بیسویں صدی میں اقبال کے بعد سب سے بڑے شاعر جوش ہیں۔ اس میں کوئی مبالغہ بھی نہیں ہے۔ جوش نے اپنی شاعری میں جن جن لفظیات کو استعمال کیا ہے اس سے ان کی استادی اور ادبی مہارت کا اندازہ ہوتا ہے۔ کہنے کو تو جوش کو لذت پسند اور حسن پرست بھی کہا جاتا ہے لیکن جوش صحیح معنوں میں سب سے اخیر میں ایک انسان نواز شاعر ہیں اور یہ بات ان کے اس مجموعے بھی صاف عیاں ہے۔ ان کا یہ مجموعہ 1936 میں منظر عام پر آیا اور اس میں ان کی نظمیں شامل ہیں۔ اس کتاب کی سب سے خاص بات اس کا مقدمہ جسے لطیف الدین احمد اکبر آبادی نے تحریر کیا ہے۔ اس میں جوش کی شاعری، ان کے محاکات، ان کے خمریات، ان کی وطنیت، ریا دشمنی، ذکر شباب، ان کی زبان اور ان کا فلسفہ یا مسلک پر بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے۔
شبیر حسن خاں نام، پہلے شبیرؔ تخلص کرتے تھے پھر جوشؔ اختیار کیا۔ 1898 ء میں ملیح آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد بشیر احمد خاں بشیرؔ، دادا محمد احمد خاں احمدؔ اور پردادا فقیر محمد خاں گویاؔ معروف شاعر تھے۔ اس طرح شاعری انہیں وراثت میں ملی تھی۔ ان کا گھرانا جاگیرداروں کا گھرانا تھا۔ ہر طرح کا عیش و آرام میسر تھا لیکن اعلیٰ تعلیم نہ پاسکے۔ آخرکار مطالعے کا شوق ہوا اور زبان پر عبور حاصل کرلیا۔ شعر کہنے لگے تو عزیزؔ لکھنوی سے اصلاح لی۔ ملازمت کی تلاش ہوئی تو طرح طرح کی دشوایوں کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر کار دارالترجمہ عثمانیہ میں ملازمت مل گئی۔ کچھ مدت وہاں گزارنے کے بعد دہلی آئے اور رسالہ ’’کلیم‘‘ جاری کیا۔ آل انڈیا ریڈیو سے بھی تعلق رہا۔ سرکاری رسالہ ’آج کل‘ کے مدیر مقرر ہوئے۔ اسی رسالہ سے وابستہ تھے کہ پاکستان چلے گئے۔ وہاں لغت سازی میں مصروف رہے۔ وہیں 1982ء میں وفات پائی۔
جوشؔ نے کچھ غزلیں بھی کہیں لیکن ان کی شہرت کا دارومدار نظموں پر ہے۔ انہوں نے تحریک آزادی کی حمایت میں نظمیں کہیں تو انہیں ملک گیر شہرت حاصل ہوگئی اور انہیں شاعرانقلاب کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔ ان کی سیاسی نظموں پر طرح طرح کے اعتراضات کیے گئے۔ خاص طور پر یہ بات کہی گئی کہ وہ سیاسی شعور سے محروم اور انقلاب کے مفہوم سے ناآشنا ہیں۔ ان نظموں میں خطابت کے جوش کو سوا اور کچھ نہیں لیکن اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ ملک میں سیاسی بیداری پیدا کرنے اور تحریک آزادی کو فروغ دینے میں جوشؔ کی نظموں کا بڑا حصہ ہے۔
شاعر انقلاب کے علاوہ جوشؔ کی ایک حیثیت شاعر فطرت کی ہے۔ مناظر فطرت میں جوشؔ کے لئے بے حد کش ہے۔ وہ ان کی ایسی جیتی جاگتی تصویریں کھینچتے ہیں کہ میر انیس کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی جوشؔ کی انقلابی شاعری کے تو قائل نہیں لیکن مناظر فطرت کی تصویر کشی میں جوشؔ نے جس مہارت کا ثبوت دیا ہے اس کے قائل ہیں۔ فرماتے ہیں ’’جوشؔ نے مناظر فطرت پر جس کثرت سے نظمیں لکھی ہیں اس کی مثال پوری اردو شاعری میں نہیں ملے گی‘‘۔ صبح و شام، برسات کی بہار، گھٹا، بدلی کا چاند، ساون کا مہینہ، گنگا کا گھاٹ، یہ تمام مناظر جوشؔ کی نظموں میں رقصاں وجولاں ہیں۔ بدلی کا چاند، البیلی صبح، تاجدار صبح، آبشار نغمہ، برسات کی چاندنی وہ زندۂ جاوید نظمیں ہیں جن کے سبب جوشؔ فطرت ہی نہیں بلکہ پیغمبر فطرت کہلائے۔
جوشؔ کی تیسری حیثیت شاعر شباب کی ہے۔ وہ عشق مجازی کے شاعر ہیں اور وصل محبوب کے طلبگار۔ ہجر کے مصائب برداشت کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ انہیں ہر اچھی صورت پسند ہے اور وہ بھی اس وقت تک جب تک وصال میسر نہ ہو۔ ’’مہترانی‘‘ ’’مالن‘‘ اور ’’جامن والیاں‘‘ جوشؔ کی مزیدار نظمیں ہیں۔ اس قبیل کی دوسری نظموں کے نام ہیں۔ ’’اٹھتی جوانی‘‘، ’’جوانی کے دن‘‘، ’’جوانی کی رات‘‘ ’’فتنۂ خانقاہ‘‘، پہلی مفارقت‘‘ ’’جوانی کی آمد آمد‘‘، ’’جوانی کا تقاضا‘‘۔
جوشؔ کی شاعری میں سب سے زیادہ قابل توجہ چیز ہے۔ ایک دلکش اور جاندار زبان! جوشؔ کو زبان پر مکمل عبور حاصل ہے۔ انہیں بجا طور پر لفظوں کا بادشاہ کہا گیا ہے۔ مترنم الفاظ کے انتخاب کا انہیں بہت سلیقہ ہے۔ ان کی تشبیہوں اور استعاروں میں بے حد لطافت پائی جاتی ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets