Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف: تعارف

اردو  نثر و نظم کے مجدد اور تنقید کے بانی

خواجہ الطاف حسین حالی اردو ادب کے پہلے ریفارمر اور بہت بڑے محسن ہیں۔وہ بیک وقت  شاعر،نثر نگار،نقّاد صاحب طرز سوانح نگار اور مصلح قوم  ہیں جنھوں نے ادبی اور معاشرتی سطح پر زندگی کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو محسوس کیا اور ادب و معاشرت کو ان تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا۔ ان کی تین اہم کتابیں "حیات سعدی، "یادگار غالب" اور "حیات جاوید" سوانح عمریاں بھی ہیں اور تنقیدیں بھی۔"مقدمۂ شعر و شاعری" کے ذریعہ  انھوں نے اردو میں باقاعدہ تنقید کی بنیاد رکھی اور شعر و شاعری کے تعلق سے اک مکمل اور حیات آفریں نظریہ مرتب کیا اور پھر اس کی روشنی میں شاعری پر تبصرہ کیا۔اب اردو تنقید کے جو سانچے ہیں وہ حالی کے بناے ہوئے ہیں اور اب جن چیزوں پر زور دیا جاتا ہے، ان کی طرف سب سے پہلے حالی  نے اپنے مقدمہ میں توجہ دلائی۔ ا پنی مسدس ( مثنوی مدؔ و جزر اسلام)  میں وہ قوم کی زبوں حالی پر خود بھی روئے اور دوسروں کو بھی رلایا۔  مسدس نے سارے ملک میں جو شہرت اور مقبولیت حاصل کی وہ اپنی مثال آپ تھی۔ سر سید احمد خان کہا کرتے تھے کہ اگر روز محشر خدا نے پوچھا کہ دنیا سے اپنے ساتھ کیا لایا تو کہہ دون گا کہ حالی سے مسدس لکھوائی۔

الطاف حسین حالی 1837 ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے۔نو برس کے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ان کی پرورش اور تربیت ان کے بڑے بھائی نے پدرانہ شفقت سے کی۔حالی نے ابتدائی تعلیم پانی پت میں ہی حاصل کی اور قرآن حفظ کیا 17 سال کی عمر میں ان کی شادی کردی گئی۔ شادی کے بعد ان کو روزگار کی فکر لاحق ہوئی چنانچہ ایک دن جب ان کی اہلیہ اپنے میکہ گئی ہوئی تھیں،وہ کسی کو بتائے بغیر پیدل اور خالی ہاتھ دہلی آ گئے۔ حالی کو باقاعدہ تعلیم کا موقع نہیں ملا ۔پانی پت اور دہلی میں  انھوں نے کسی ترتیب و نظام  کے بغیر فارسی ،عربی،فلسفہ و منطق اور حدیث و تفسیر کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ادب میں  انھوں نے جو خاص بصیرت حاصل کی وہ  ان کے اپنے شوق ،مطالعہ اور محنت کی بدولت تھی۔ دہلی کے قیام کے دوران وہ مرزا غالب کی خدمت میں حاضر رہا کرتے تھے اور ان کے بعض فارسی قصائد ان ہی سے سبقاً پڑھے۔ اس کے بعد وہ خود بھی شعر کہنے لگے اور اپنی کچھ غزلیں مرزا کے سامنے بغرض اصلاح پیش کیں تو  انھوں نے کہا  "اگرچہ میں کسی کو فکر شعر کی صلاح نہیں دیتا  لیکن تمھاری نسبت میرا خیال ہے کہ  تم شعر نہ کہو گے تو  اپنی طبیعت پر سخت ظلم کرو گے"۔1857 کے ہنگاموں میں حالی کو دہلی چھوڑ کر پانی پت واپس جانا پڑا اور کئی سال بیروزگاری اور تنگی میں گزرے پھر ان کی ملاقات  نواب  مصطفیٰ خان شیفتہ،رئیس دہلی و تعلقہ دار جہانگیر آباد (ضلع بلند شہر) سے ہوئی جو ان کو اپنے ساتھ جہانگیر اباد لے گئے اور انھیں اپنا مصاحب اور اپنے بچوں کا اتالیق بنا  دیا۔شیفتہ  غالب کے دوست ،اردو   و  فارسی کے شاعر تھے اور مبالغہ کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ وہ سیدھی سادی اور سچی باتوں کو  حسن بیان سے دلفریب بنانے کو  شاعری کا کمال سمجھتے تھے اور عامیانہ خیال سے متنفر تھے۔حالی کی شاعرانہ ذہن سازی میں شیفتہ کی صحبت کا بڑا دخل تھا۔ حالی غالب کے معتقد ضرور تھے لیکن شاعری میں  ان کو اپنا آئڈیل نہیں بنایا ۔شاعری میں وہ خود کومیر کا مقلد بتاتے ہیں ۔1872ء میں شیفتہ کے انتقال کے بعد حالی   پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازم ہو گئے جہاں ان کا کام انگریزی سے اردو میں ترجمہ کی  جانے والی کتابوں کی زبان درست کرنا تھا۔  اسی زمانہ میں  پنجاب کے محکمۂ تعلیم کے ڈائرکٹر کرنل ہالرائڈ کی ایماء پر محمد حسین نے  ایسے مشاعروں کی طرح ڈالی جن  میں شعراء کسی ایک موضوع پر اپنی نظمیں سناتے تھے۔ حالی کی چار نظمیں  "حب وطن"،برکھا رت"،نشاط امید" اور مناظرۂ رحم و انصاف" ان ہی مشاعروں کے لئے لکھی گئیں۔ لاہور میں ہی انھوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لئے  اپنی کتاب "مجالس انساء" قصہ کے پیرائے میں لکھی جس پر  وائسرائے نارتھ بروک نے ان کو 400 روپے کا انعام دیا۔ کچھ عرصہ بعد وہ لاہور کی ملازمت چھوڑ کر دہلی کے اینگلو عربک اسکول میں مدرس ہو گئے اور پھر 1879ء میں سر سید کی ترغیب پر   مثنوی مدّ و جزر اسلام "لکھی جو مسدس حالی کے نام سے مشہور ہے۔اس کے بعد   1884ء میں حالی نے "حیات سعدی" لکھی جس میں شیخ سعدی کے حالات زندگی اور ان کی شاعری پر تبصرہ ہے۔"حیات سعدی اردو  کی با اصول سوانح نگاری  میں پہلی اہم کتاب ہے۔

"مقدمۂ شعر و شاعری "حالی کے دیوان کے ساتھ  1893ءمیں شائع ہوا جو اردو تنقید نگاری میں اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔اس نے تنقیدی روایت کا رُخ بدل دیا اور  جدید تنقید کی بنیاد رکھی۔ اس کتاب میں شاعری کے حوالہ سے ظاہر کئے گئے خیالات، مغربی تنقیدی اصولوں  کی اشاعت کے باوجود اب بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ان کی "یادگار غالب" 1897میں شائع ہوئی۔ یہ غالب کے حالات زندگی اور ان کی شاعری پر تبصرہ ہے۔غالب کو عوامی مقبولیت دلانے میں اس کتاب کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔اس سے پہلے غالب ی شاعری صرف خواص کی پسندیدہ تھی۔ نثر میں حالی کی اک  اور تصنیف "حیات جاوید"  ہے جو 1901 ء میں شائع ہوئی۔ یہ سر سید کے حالات زندگی اور ان کے کارناموں کی دستاویز ہی نہیں  بلکہ مسلمانوں کی تقریباً ایک صدی کی  تہذیبی تاریخ بھی ہے۔ اس میں اس زمانے کی معاشرت،تعلیم،مذہب،سیاست اور زبان وغیرہ کے مسائل زیر بحث آگئے ہیں۔

حالی نے عورتوں کی ترقی ا ور ان کے حقوق  کے لئے بہت کچھ لکھا۔ان میں "مناجات بیوہ"اور،"چپ کی داد" نے شہرت حاصل کی۔ حالی نے اردو مرثئے کو بھی نیا رخ دیا جو سچے درد کے ترجمان ہیں۔ حالی نے غزلوں، نظموں اور مثنویوں کے علاوہ قطعات، رباعیات اور قصائد بھی لکھے۔

1887ء میں سر سید کی سفارش پر ریاست حیدر اباد نے   امداد مصنفین کے محکمہ سے ان کا 75 روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا جو بعد میں 100 روپے ماہوار ہو گیا۔اس وظیفہ کے بعد قناعت پسند حالی اینگلو عربک کالج کی ملازمت سے مستعفی ہو کر پانی پت چلے گئے اور وہیں اپنا تصنیفی سلسلہ جاری رکھا ۔ 1904ء میں حکومت نے انھیں شمس العلماء کے خطاب سے نوازا جسے انھوں نے اپنے لئے مصیبت گردانا کہ اب سرکاری حکام کے سامنے حاضری دینا پڑے گی۔ شبلی نے انھیں خطاب دئے جانے پر کہا کہ اب صحیح معنوں میں اس خطاب کی عزت افزائی ہوئی۔ حالی نزلہ کے دائمی مریض تھے جس پر قابو پانے کے لئے انھوں نے افیون کا استعمال شروع کیا جس سے فائدہ کی بجائے نقصان ہوا۔ ان کی بصارت بھی دھیرے دھیرے زائل ہوتی گئی۔ دسمبر 1914ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔

اردو ادب میں حالی کی حیثیت کئی اعتبار سے ممتاز و منفرد ہے۔ انھوں نے جس وقت ادب کے کوچے میں قدم رکھا اس وقت اردو شاعری لفظوں کا کھیل بنی ہوئی تھی یا پھر عاشقانہ شاعری میں معاملہ بندی کے مضامین مقبول تھے۔غزل میں آفاقیت اور اجتماعیت کا حوالہ بہت کم تھا اور شاعری اک نجی مشغلہ بنی ہوئی تھی۔ حالی نے ان رجحانات کے مقابلہ میں حقیقی اور سچے جذبات کے بے تکلفانہ  اظہار کو ترجیح دی۔ وہ جدید نظم نگاری کے اوّلین معماروں میں سے ایک تھے۔انھوں نے غزل کو حقیقت سے ہم آہنگ کیا  اور قومی و اجتماعی شاعری کی بنیاد رکھی۔اسی طرح انھوں نے نثر میں بھی سادگی اور برجستگی داخل کر کے اسے  ہر قسم کے  علمی ،ادبی اور تحقیقی مضامین ادا کرنے کے قابل بنایا۔ حالی شرافت اور نیک نفسی کا مجسمہ تھے۔ مزاج میں ضبط و اعتدال، رواداری  اور بلند نظری  ان کی ایسی خوبیاں تھیں جن کی جھللک ان کے کلام میں بھی نظر آتی ہے۔اردو ادب کی جو وسیع و عریض ،خوبصورت  اور دلفریب عمارت آج نظر آتی ہے اس کی بنیاد کے پتھر حالی نے ہی بچھائے تھے۔

 

.....مزید پڑھئے

اردو میں وہ شخصیت جسے پہلا ناول نگار ہونے کا شرف حاصل ہے، جس نے سب سے پہلے خواتین کے لیے ادب کی تشکیل کی، جس نے تانیثیت کا منشور مرتب کیا اور انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ ’تعزیرات ہند‘کے نام سے کیا جو سرکاری حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔ اس شخصیت کا نام ڈپٹی نذیر احمد ہے۔

نذیر احمد کی پیدائش 6 دسمبر1836 کوضلع بجنور میں ہوئی۔ ان کے والد مولوی سعادت علی معلم تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ دلی کے اورنگ آبادی مدرسےمیں مولوی عبد الخالق سے درس لیا۔ دہلی کے زمانۂ طالب علمی میں پنجابی کٹرے کی مسجد میں رہتے تھے۔ اس زمانے میں دینی مدرسے کے زیادہ تر طالب علموں کو بستی کےگھروں سے روٹیاں لانی پڑتی تھی۔ نذیر احمد کو بھی اپنے کھانے کا انتظام اسی طرح کرنا پڑا۔ کہیں سے رات کی بچی ہوئی دال توکہیں سے دو تین سوکھی روٹیاں مل جاتی تھیں۔ نذیر احمد مولوی عبد الخالق کے گھر سے بھی روٹیاں لاتے تھے۔ جہاں ایک لڑکی ان سے روٹی کے بدلے مصالحے پسواتی تھی ۔اور کبھی کبھی مصالحہ پیسنے میں سستی کی وجہ سے انگلی پر سل کا بٹہ بھی مار دیتی تھی۔ خود نذیر احمدنے لکھا ہے کہ؛ ’’ادھر میں نے دروازے میں قدم رکھا، ادھر ان کی لڑکی نے ٹانگ لی۔ جب تک سیر دو سیر مصالحہ مجھ سے نہ پسوا لیتی نہ گھر سے نکلنے دیتی نہ روٹی کا ٹکڑا دیتی... خدا جانے کہاں سے محلہ بھر کا مصالحہ اٹھا لاتی تھی۔ پیستے پیستے ہاتھوں میں گٹے پڑ گئے تھے جہاں میں نے ہاتھ روکا اور اس نے بٹہ انگلیوں پر مارا، بخدا جان سی نکل جاتی تھی۔‘‘ یہی لڑکی بعد میں نذیر احمد کی شریک حیات بنی۔

مدرسہ کی تعلیم  کےبعد نذیر احمد نے دلی کالج میں داخلہ لیا، یہاں انہیں وظیفہ بھی مل گیا۔ دلی میں 8 سال گزارنے کے بعد بسلسلہ ملازمت گجرات پہنچے۔ جہاں80 روپئے  ماہوار پر انہیں نوکری مل گئی۔ اس کے بعد ترقی کرتے ہوئے وہ کانپور میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس ہو گئے۔ 1857 کے انقلاب میں دلی واپس آئے۔ یہاں سے نظام دکن نے انہیں حیدر آباد بلا لیا۔ جہاں ان کی تنخواہ1240  روپئے مقرر ہوئی۔ انہیں دفاتر کا معائنہ اور کار کردگی کی مفصل روداد پیش کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔ نذیر احمد نے بہت محنت اور لگن سے کام کیا اس لیے انہیں ترقی ملتی گئی۔ وہ صدر تعلقہ دار بن گئے۔ اس دوران انہوں نے نظام دکن کے بچوں کو پڑھانے کا بھی کام کیا۔ 
ڈپٹی نذیر احمد جب جالون میں تھے تو انہیں بچوں کے لیے کچھ کتابوں کی ضرورت محسوس ہوئی مگر وہ دستیاب نہ ہو سکیں تو انہوں نے خود بچوں کے لیے کتابیں لکھنے کا کام شروع کر دیا۔ ’مراۃ العروس‘ ’منتخب الحکایات‘ وغیرہ  ان کی اپنے بچوں کے لیے لکھی ہوئی کتابیں ہیں۔

ڈپٹی نذیر احمد نے بہت سے ناول تحریر کئے جن کا مقصد اصلاحی تھا اور ان ناولوں میں زیادہ زور لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور امورخانہ داری پر تھا۔ ان کے مشہور ناولوں میں ’مراۃ العروس‘ ’بنات النعش‘’ توبۃ النصوح‘ ’فسانہ مبتلا‘ ’ابن الوقت‘’ ایامی ‘اور ’رویائے صادقہ‘ ہیں۔

’مراۃ العروس ‘ان کا سب سے مشہور ناول ہے۔ جس کے کردار اکبری اور اصغری آج بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔یہ ناول جب شائع ہوا تھا تو حکومت نے ایک ہزار روپے انعام سے نوازا تھا۔1869 میں شائع ہوئے والے اس ناول کو زیادہ تر لوگ اردو کا پہلا ناول مانتے ہیں۔ 

’ابن الوقت ‘ بھی نذیر احمد کا بہت مشہور ناول ہے ،جس میں مغربی تہذیب و تمدن کی نقالی پر طنز کیا گیا ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں اس میں سر سید احمد خان کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔مگر ڈپٹی نذیر احمد نے اس کی تردید کی ہے کیوں کہ وہ خود سر سید کی تحریک سے نہ صرف متاثر تھے بلکہ سر سید کے مشن کی تبلیغ اور ترویج کے لیے ہمیشہ سرگرم رہتے تھے۔ وہ سر سید کے تمام نظریات اور تصورات کے قدرداں تھے اور مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے پلیٹ فارم سے اہم قومی خدمات بھی انجام دی ہیں۔

ڈپٹی نذیر احمد نے ناولوں کے علاوہ جو اہم علمی کام کئے ہیں ان میں قرآن کا ترجمہ، قانون انکم ٹیکس، قانون شہادت بہت اہم ہیں ۔ 
ڈپٹی نذیر احمد کی بیشتر کتابیں بہت مقبول ہوئیں اور ان کی کتابوں کا انگریزی کے علاوہ پنچابی، کشمیری، مراٹھی، گجراتی، بنگلہ، بھاکا وغیرہ میں ترجمے ہوئے۔ ’مراۃ العروس ‘ کا ترجمہ انگریزی میں 1903 میں لندن سے شائع ہوا۔ 1884 میں ’توبۃ انصوح‘  کا ترجمہ سر ولیم میور کے دیباچہ کے ساتھ شائع ہوا۔

ڈپٹی نذیر احمد کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ان کی ادبی اور مغربی خدمات کے صلےمیں برطانوی حکومت نے شمس العلما کا خطاب دیا تھا ۔
آخری عمر میں ڈپٹی نذیر احمد پر فالج کا حملہ ہوا اور 3 مئی 1912ء میں دلی میں وفات پا گئے۔

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے