aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
محمد سلیم الرحمن 12 اپریل 1934ءکو سہارن پور،اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام عقیل الرحمن ندوی تھا ،جو ندوۃ العلما سے پڑھے اور مسلم یونی ورسٹی ہائی سکول علی گڑھ میں عربی اور فارسی کے استاد تھے۔ابتدائی تعلیم گھر میں ہی اپنے والد صاحب سے حاصل کی۔پانچویں جماعت میں اسی سکول میں داخل ہوئے۔ میٹرک کا امتحان میں1948 ء میں پاس کیا۔ایک سال غیر حاضری کی وجہ سےامتحان نہ دے سکے اور 1951 ءمیں ایف ایس سی میں داخلہ لیا۔آپ کے مضامین :جیوگرافی،جیولوجی اور کیمسٹری تھے ۔ان کے دادا کا نام خلیل الرحمن تھا اور وہ کھیتی باڑی کرتے تھے۔مولانا شبلی نعمانی نے اس گھرانے سے فیض اٹھایا۔ان کے پڑدادا احمد علی سہارن پوری سے باقاعدہ علم حاصل کیا۔ نہ صرف مولانا شبلی نعمانی نے بلکہ پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف نے بھی فیض اٹھایا۔اِن کی سوانح میں احمد علی سہارن پوری کا باقاعدہ تذکرہ ہے۔ان کے والد کا انتقال 1943ء میں ہوا۔ان کی دو بیٹیاں اورمحمد سلیم الرحمن بیٹے ہیں۔'قوسین'سے ایک اشاعتی ادارہ ان کی سرابرہی میں کام کر رہا ہے۔قیام پاکستان کے بعد 1952ء میں لاہور آگئے اور دورغہ والا میں رہتے ہیں۔ادب ہی ان کی زندگی ہے۔
ترجمہ نگاری:
اردو ادب میں بہ طور مترجم اپنی حیثیت کو مسلّم کیا۔1946ءسے انھوں نے انگلش پڑھنا شروع کی۔22 سال کی عمر میں سب سے پہلی اوڈیسی(مصنف:ایلیڈ )کا اردو ترجمہ"جہاں گرد کی واپسی"کے نام سے کیا۔یہ ترجمہ انھوں نے1955ء یا1956ء میں کرنا شروع کیا۔یہ ترجمہ لاہور میں ہوا۔اس کو 6 سے 7 ماہ کا عرصہ لگا۔اس ترجمے کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ میں تیرتھ رام فیروز پوری کے ترجمے پڑھتا تھا۔ظاہر ہے تیرتھ رام کو کئی مہینے لگتے ہوں گئے ترجمہ کرتے ہوئے ہم دو دن میں پڑھ لیتے تھے۔کتابیں ختم ہو گئیں تو میرے دوست صلاح الدین محمودنے کہا ہم جو ترجمہ پڑھتے ہیں کیوں نہ ہم انگلش میں ہی پڑھا کریں۔اس طرح ہم نے انگلش پڑھنا شروع کی۔ان کا کہنا تھا"جب میں نے ترجمہ کیا تو امید نہیں تھی کہ کوئی اسے چھاپے گا،میں جانتا ہی نہیں تھا کسی کو۔ میرے ایک دوست امریکن لائبریری میں چیف لائبریرین تھے ۔ان سے میری واقفیت تھی۔ہم دونوں Spanish ساتھ پڑھتے تھے۔میں نے ویسے ہی ان سے ذکر کیاکہ میں اوڈیسی کا ترجمہ کیا ہے۔وہ بڑے حیران ہوئے۔کہنے لگے مجھے بھی دکھاو۔میں نے دیا تو ان کے دوست تھے شیخ صلاح الدین۔انھوں نے شیخ صاحب سے ذکر کیا،وہ لے گئے۔شیخ صاحب حنیف رامے کے گرو تھے جو"سویرا"بھی ایڈیٹ کرتے تھے۔وہ نام تو نہیں دے سکتے تھے کیوں کہ وہ سرکاری ملازم تھے۔انھوں نے حنیف سے کہا کہ ترجمہ اچھا ہے چھاپ لو۔ انھوں نے دیکھا اور کہا کہ ہم ترجمہ چھپانے کو تیار ہیں۔"اس طرح اوڈیسی کا ترجمہ مکتبہ جدید(لاہور)سے چھپا۔
1957ء میں شاعری کا آغاز کیا اور پہلی نظم لکھی۔1962ء کے آخر میں پہلا افسانہ"ساگر اور سیڑھیوں"لکھا،جو سویرا میں شائع ہوا۔حال ہی میں ان کی کتاب''افسانے،ڈرامے اور ناول کے چند اوراق''2023 ءمیں شائع ہوئی۔جن میں افسانوں کی تعداد یہ ہے:1۔ساگر اور سیڑھیاں(1962ء)۔2۔نیند کا بچپن(1964ء-انگلش میں ترجمہ ہو چکا ہے)۔3-وقت پگھلنے کی رات(1965ء-66ء-انگلش میں ترجمہ ہو چکا ہے)۔4-سائی بیریا(-انگلش میں ترجمہ ہو چکا ہے)۔5-راکھ(رسالہ محراب میں یہ افسانہ شائع ہوا۔جس کو سہیل احمد خان اور احمد مشتاق نکالتے تھے۔-انگلش میں ترجمہ ہو چکا ہے)۔6-باخبربےخبر(آج اور سویرا میں شائع ہوا)۔7۔آوازیں(انگلش ترجمہ عمر میمن نے کیا)۔8-روزگار۔9۔بے کارمباش۔10۔مواقع(یہ افسانہ انگلش میں لکھا تھا۔نام تھا opportunities۔انھوں نے بعد میں اردو ترجمہ خود کیا)۔11۔سفارشی -12۔معما(آخری دونوں افسانے 2023ء میں لکھے گئے)۔اس کتاب میں دو ڈرامے بھی شامل ہیں:1-بیس برس بعد(فرخ نگار عزیز نے یہ ڈرامہ لکھوایا تھا جس کو سٹیج بھی کیا گیا۔)2۔پروفیسر نافرمان خاں کی مشین۔اس کتاب میں ناول کے چند اوراق بھی شامل ہیں جو انھوں نے 1960ء اور 1961ء میں شروع کیا تھا۔اور رسالہ'لفظ'میں شائع ہوا تھا۔ان کے دوستوں میں شیخ صلاح الدین۔ناصر کاظمی۔احمد مشتاق۔سہیل احمد خان۔منیر نیازی۔ریاض احمد۔حنیف رامے۔سلطان محمود آشفتہ۔محمود گیلانی۔اور بہت سارے دوست تھے جو اب زندہ نہیں ہیں۔
رسائل کی ادارت:
حنیف رامے ایک ہفت روزہ رسالہ"نصرت"نکلا کرتے تھے۔1958 ء میں انھوں نے شروع کیا۔1962ءمیں بہ طور اسٹنٹ ایڈیٹر کام شروع کیا۔بعد میں کوئٹہ چلے گئے تو محمد سلیم الرحمن ہی اسے ایڈیٹ کرتے رہے۔حنیف رامے نے اس رسالے کو ماہ نامہ بھی کیا،پھر یہ بھٹو کے ساتھ سیاسی طور پر وابسطہ بھی ہوا۔1962ء میں ہی "سویرا"سے جوڑے اور ابھی تک اس رسالے کے ایڈیٹر ہیں۔''سویرا''کو چودھری برکت علی نے 1945ء کو جاری کیا تھا۔یہ وہی چودھری صاحب ہیں جنھوں نے 1935ءمیں ادب لطیف نکالنا شروع کیا اور ابھی تک لاہور میں یہ روایت کے علمبردار پوری آب تاب کے ساتھ چمک رہے ہیں۔
کتب:
1۔ جہاں گرد کی واپسی(1958ء) ایلیڈ کی 'اوڈیسی ' کا ترجمہ۔
2- ہیمنگوے مصنف فلپ ینگ(ترجمہ)1965ء
3- امن(افسانے،مضامین،نظمیں)یہ رسالے کا ترجمہ نومبر 1976ء میں فیروز سنز کراچی سے شائع ہوئی۔یہ رسالہ تھا جن کی ایڈیٹر 'مارٹن گریگر ڈیلن 'تھیں۔
4۔ تین ڈرامے(ترجمہ)1976ء
5- مشاہیر ادب یونانی-قوسین لاہور سے 1992ءمیں شائع ہوئی۔
6- رباعیات سرمد(ترجمہ) 1994ء
7- اسیر ذہن(ترجمہ) 1998ء
8- چلتا پرزہ(ہسپانوی ناول)ترجمہ2000ء
9- قلب ظمازت(ناول) جوزف کونریڈ۔ترجمہ 2001ء
10- ریاض دلربا۔لالہ گمانی لال ۔2001 میں مرتب کیا۔
11۔ نظمیں(شاعری) قوسین لاہور سے 2002ء میں شائع ہوئی۔
12- کارل اور اینا(منتخب ترجمے)۔2003ء
13۔ گمشدہ چیزوں کے درمیان(منتخب تراجم) 2012ء۔
14۔ کانا باتی
15- سمندری بگلا مصنف چیخوف(ترجمہ)
16۔ جنگ کا فن مصنف سن زو(ترجمہ)
17۔ پہاڑ کی آواز مصنف یاسوناری کاوا باتا(ترجمہ)
18- مضامیںِ فراق مصنف ناصر نذیر فراق(مرتب)
19- درد جاں ستاں۔
20۔ طلسم ِگوہر بار۔
21- ہوائی توانائی۔
22- افسانے،ڈرامے۔ناول کے چند اوراق(2023ء)
(نوٹ) اس کے علاوہ بچوں کے لیے بہت ساری کہانیوں کو ترتیب دیا جو لاہور کے مختلف اشاعتی اداروں سے شائع ہوئیں۔
ایوارڈ:
اکادمی ادبیات کے ممبر بھی رہے اس کے علاوہ بہت سارے ادبی رسائل کے مجلس مشاورت میں شامل ہیں۔2016ء میں ان کو صدارتی ایوارڈ دیا گیا مگر انھوں نے ادب کی خدمت کا صلہ لینا گوارا نہ کیا۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free