aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
مولانا ظفر علی خاں شاعر اور صحافی تھے اور تحریک پاکستان کے اہم رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔انہیں بابائے اردو صحافت کہا جاتا ہے۔ ان کی شاعرانہ کاوشیں بہارستان، نگارستان اور چمنستان کی شکل میں چھپ چکی ہیں ۔اس کے علاوہ بھی ان کی متعدد تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں۔ آپ کے سامنے اس وقت ان کا مشہور مجموعہ " نگارستان " ہے ۔ اس میں مذہب و عقائد، سیاست و معاشرت اور اصلاحات کی نظمیں ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ نظموں کے استعارے کو سمجھانے کے لئے حاشیہ نمبر دیا ہوا ہے اور اس حاشیے میں پوری بات نثری انداز میں سمجھائی گئی ہے ۔ کئی موقعوں پر یہ حاشیہ طویل یہاں تک کہ ایک صفحے سے نکل کر دوسرے صفحے تک پھیلا ہوا ہے ۔ کہیں پر بھی اشعار کے معنی مرادی کو سمجھانے میں کوتاہی نہیں کی گئی ہے اور جہاں بھی معمولی اغلاق نظر آیا، حاشیہ میں اس کا خلاصہ یا مخصوص واقعہ کی طرف نشاندہی کردی گئی ہے۔ کوئی نظم کسی مخصوص موقع پر کہی گئی ہو تو اسے مکمل تاریخ کے ساتھ لکھ دیا گیا ہے ۔مثلاً مسجد انگور راولپنڈی پہنچتے ہیں اور مسجد کے روحانی منظر کو دیکھ کر ایسا متاثر ہوئے کہ ایک نظم کہہ دی، نظم سے پہلے ایک نثری تعارف ہے جس میں تاریخ ، ماہ اور دیگر تفصیل لکھی ہوئی ہے ، اس کے بعد نظم ہے۔ یہ صورت حال کتاب میں بار بار پیش آئی ہے۔ کتاب کا مطالعہ نظم و نثر دونوں کا مزہ دیتا ہے۔
ظفر علی خان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں ۔ وہ شاعر بھی تھے ،مدیر بھی اور آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے والے ایک سرگرم سیاسی کارکن بھی ۔ ان کی پیدائش 1873 میں قصبہ کوٹ مرتا ضلع سیالکوٹ میں ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم کرم آباد میں ہی حاصل کی اور اس کے بعد اینگلو محمڈن کالج علی گڑھ میں زیر تعلیم رہے ۔
مولانا ظفر علی خاں اس وقت کے مشہور روزنامے ’’ زمیندار‘‘ کے مدیر رہے ، اس اخبار نے اپنے وقت میں سیاسی ، سماجی اور تہذیبی مسائل ومعاملات کی عکاسی اور سماج کے ایک بڑے طبقے میں ان مسائل کے حوالے سے رائے سازی میں اہم کردار ادا کیا ۔ مولانا کا سیاسی مسلک گاندھی جی کی عدم تشدد کی حکمت عملی سے بہت مختلف تھا ، وہ برطانوی حکمرانوں سے براہ راست ٹکراؤ میں یقین رکھتے تھے ۔ تحریک آزادی میں حصہ لینے کی پاداش میں گورنر پنجاب سرمائیکل اوڈوائر کے دور میں انھیں پانچ سال کی قید بامشقت بھی برداشت کرنی پڑی ۔ خلافت تحریک سے بھی مولانا کی وابستگی بہت مظبوط تھی ۔
مولانا کی شاعری بھی ان کی اسی سیاسی اور سماجی جدوجہد کا ایک ذریعہ رہی ان کی نظموں کے موضوعات ان کے وقت کی اتھل پتھل کے ارد گرد گھومتے ہیں ۔ ان کی بیشتر نظمیں وقتی تقاضوں کے پیش نظر تخلیق کی گئی ہیں ۔
27 نومبر 1956 کو لاہور میں ان کا انتقال ہوا ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets