aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
خدائے سخن میر تقی میراردو کے عظیم شاعر ہیں۔میر نے شاعری کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔نثر میں بھی تین تصانیف میر کی یاد گار ہیں۔جن میں ایک فارسی" تذکرہ نکات الشعراء"ہے۔جو اردو کا اولین تذکرہ ہے۔تذکرے کو نہ بیاض نویس کی مختصر بیانی راس آتی ہے اور نہ تاریخ نگار کی مفصل بیانی۔تذکرہ نگار اپنے حدود میں رہ کر شعرا کے حالات رقم کرتا ہے۔کلام پر رائے دیتا ہے اور کچھ انتخاب پیش کرتا ہے۔میر نے اپنی تذکرہ میں 104 شعرا ءکے مختصر حالات اور منتخبہ کلام شامل کیا ہے۔جن میں بتیس شعرا دکن اور ماباقی شمالی ہند کے ہیں۔چونکہ یہ اولین تذکرہ ہے اس میں میر صاحب کی اختراعی طبیعت کے جلوئے دکھائی دے رہے ہیں۔یہ تذکرہ معلومات کا خزانہ ہے۔جس میں میر اپنے ایک منفرد اندازمیں نظرآتے ہیں۔نکات الشعر اکا میر بار باش،زندہ دل گپ شپ کرنے والا، میلے ٹھیلوں کا عاشق ،عرس میں راتیں گذارنے والا،بزرگوں کا احترام کرنے والا،مخالفین کے لیے بھی نرم گوشہ رکھنے والا ہے۔جیسےجیسے ہم نکات الشعرا ءپڑھتے جاتے ہیں میر صاحب کی شگفتہ اور زندہ دل شخصیت کے نقش ابھرتے جاتے ہیں۔یہ کتاب متنازع فیہ بھی رہی کہ میر نے اس میں دو ٹوک باتیں بھی کہی ہیں۔اپنے زمانے کے شعرا کی تنقید بھی کی ہے۔ان کے اشعار میں ترمیم اور اصلاح بھی کی ہے۔جن اشعار کی اصلاح میرنے کی ہے وہ اشعار بہترین ہوگئے ہیں۔جس کوبعدمیں کسی نے مسترد نہیں کیا۔اس تذکرہ کی اہمیت کئی طرح سے ہے۔اول تو یہ اردو شعرا کا پہلا تذکرہ ہے،اس لیے اس کی تاریخی اہمیت ہے۔دوم یہ میرتقی میر نے لکھا ہے جو خود عظیم شاعر ہیں،سوم اس میں ڈھائی سو برس قبل کے اردو شعرا کے بڑے شگفتہ اور کامیاب خاکے ہیں،ان کے بہترین اشعار بھی شامل ہیں۔چہارم اس میں اردو شاعری تنقیدکے اولین خد وخال ہیں۔پنجم یہ کہ میر کے تنقیدی پیمانے جان کر ہم ان کی شاعری کا بہتر شعور حاصل کرسکتے ہیں۔میر کے تذکرہ کی اہمیت اس اعتبار سے بھی ہے کہ اس میں ایسے بے شمار فن کاروں کو بے نام و نشاں ہونے سے بچا لیا ہے جن کے کارنامے یا تو کسی وجہ مدون نہ ہوسکے یا مدون ہونے کے بعد ضائع ہوگئے ۔اس کے علاوہ یہ تذکرہ چونکہ روا روی میں لکھا گیا تھا اور اولین کوشش تھی اس لیے اس میں کئی خامیاں بھی نظر آتی ہیں۔جیسے شعرا کی ترتیب کا کوئی اصول نہیں تھا۔انھوں نے نہ تو شعرا کی تقسیم طبقات کے لحاظ سے کی ہے اور نہ ان کا ذکرحروف تہجی یا حروف ابجد کی ترتیب سے کیا ہے۔شعرا ئے دکن کا ذکر یکایک ایک مختصر سی تمہید کے ساتھ وسط کتاب میں آجاتا ہے، پھربغیر کسی تمہید کے شمالی ہند کے شعرا جگہ پاتے ہیں۔شعرائے دکن کے لیے میر نے عزلت کی بیاض سے استفادہ کیا ہے۔میر کی اس روش سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ میرنے یہ تذکرہ جلد بازی میں مکمل کیا ہے۔ زیر نظر تذکرہ کو حمیدہ خاتون نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔
لفظ و معنی کے جادوگر، شاعر بے مثال میر تقی میرؔ اردو غزل کا وہ آسیب ہیں کہ جو اس کی جکڑ میں آجاتا ہے، تا زندگی وہ اس کا مطیع رہتا ہے۔ میرؔ نے ان لوگوں سے بھی خراج عقیدت حاصل کیا جن کی اپنی شاعری میر سے بہت مختلف تھی۔ ان کی شاعرانہ عظمت کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو گا کہ زمانہ کے مزاجوں میں تبدیلیوں کے باوجود ان کی شاعری کی عظمت کا سکّہ ہر عہد میں جما رہا۔ ناسخ ہوں یا غالب، قائمؔ ہوں یا مصحفیؔ، ذوقؔ ہوں یا حسرت موہانی، میر کے عقیدت مند ہر زمانہ میں رہے۔ ان کا اسلوب ناقابل تقلید ہے پھر بھی ان کی طرف لپکنے اور ان کے جیسے شعر کہہ پانے کی حسرت ہر عہد کے شاعروں کے دل میں بسی رہی۔ ناصر کاظمی نے تو صاف اعتراف کیا۔
شعر ہوتے ہیں میر کے، ناصر
لفظ بس دائیں بائیں کرتا ہے
ناصر کاظمی کے بعد جون ایلیا نے بھی میر کے اتباع کی کوشش کی۔ اتباع کی یہ ساری کوششیں ان تک پہنچنے کی محال کوشش سے زیادہ ان کو ایک طرح کا خراج عقیدت ہیں۔ رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں، "آج تک میر سے بے تکلف ہونے کی ہمت کسی میں نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ آج اس پرانی زبان کی بھی نقل کی جا تی ہے جس کے نمونے جہاں تہاں میر کے کلام میں ملتے ہیں لیکن اب متروک ہو چکے ہیں۔ بربر بنائے عقیدت کسی کے نقص کی پیروی کی جائے، تو بتایئے، وہ شخص کتنا بڑا ہوگا۔" میر کو خود بھی اپنی عظمت کا احساس تھا۔
تم کبھی میر کو چاہو کہ وہ چاہیں ہیں تمھیں
اور ہم لوگ تو سب ان کا ادب کرتے ہیں
میر تقی میر کا اصل نام محمد تقی تھا۔ ان کے والد، علی متقی اپنے زمانہ کے صاحب کرامت بزرگ تھے۔ ان کے اجداد حجاز سے ترک سکونت کرکے ہندوستان آئے تھے اور کچھ عرصہ حیدرآباد اور احمد آباد میں گزار کر آگرہ میں مقیم ہو گئے تھے۔ میر آگرہ میں ہی پیدا ہوئے۔ میر کی عمر جب گیارہ بارہ برس کی تھی ان کےو الد کا انتقال ہو گیا۔ میر کے منہ بولے چچا امان اللہ درویش، جن سے میر بیحد مانوس تھے، پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ جس کا میر کو بہت صدمہ تھا۔ باپ اور اپنے مشفق امان اللہ کی موت نے میر کے ذہن پر غم کے دیر پا نقوش ثبت کر دئے جو ان کی شاعری میں جا بجا ملتے ہیں۔ والد کی وفات کے بعد ان کے سوتیلے بھائی محمد حسن نے ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ نہیں رکھا۔ وہ بڑی کسمپرسی کی حالت میں تقریباً چودہ سال کی عمر میں دہلی آ گئے۔ دہلی میں صمصام الدولہ، امیر الامراء ان کے والد کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔ انہوں نے ان کا ایک روپیہ روزینہ مقرر کر دیا جو ان کو نادر شاہ کے حملہ تک ملتا رہا۔ صمصام الدولہ نادر شاہی قتل و غارت میں مارے گئے۔ ذریعہ معاش بند ہو جانے کی وجہ سے میر کو آگرہ واپس جانا پڑا لیکن اس بار آگرہ ان کے لئے پہلے سے بھی بڑا عذاب بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں ان کو اپنی ایک عزیزہ سے عشق ہو گیا تھا جسے ان کے گھر والوں نے پسند نہیں کیا اور ان کو آگرہ چھوڑنا پڑا۔ وہ پھر دہلی آئے اور اپنے سوتیلے بھائی کے ماموں اور اپنے وقت کے جید عالم، سراج الدین آرزو کے پاس ٹھہر کر تحصیل علم کے جویا ہوئے۔ نکات الشعراء میں میر نے ان کو اپنا استاد کہا ہے لیکن ذکر میر میں میر نے جعفر علی عظیم آبادی اور امروہہ کے سعادت علی خان کو اپنا استاد بتایا ہے۔ موخرالذکر نے ہی میر کو ریختہ لکھنے کی ترغیب دی تھی۔ میر کے مطابق خان آرزو کا سلوک ان کے ساتھ اچھا نہیں تھا اور وہ اس کے لئے اپنے سوتیلے بھائی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ وہ ان کے سلوک سے بہت دل برداشتہ تھے۔ ممکن ہے کہ آگرہ میں میر کی عشق بازی نے ان کو آرزو کی نظر سے گرا دیا ہو۔ اپنے اس عشق کا تذکرہ میر نے اپنی مثنوی خواب و خیال میں کیا ہے۔ میر نے زندگی کے ان تلخ تجربات کا گہرا اثر لیا اور ان پر جنوں کی کیفیت طاری ہو گئی۔ کچھ عرصہ بعد دوا علاج سے جنوں کی شدت تو کم ہوئی مگر ان تجربات کا ان کے دماغ پر دیر پا اثر قائم رہا۔
میر نے خان آرزو کے گھر کو خیر باد کہنے کے بعد اعتماد الدولہ قمرالدین کے نواسے رعایت خان کی مصاحبت اختیار کی اور اس کے بعد جاوید خاں خواجہ سرا کی سرکار سے متعلق ہوئے۔ اسد یار خاں بخشی فوج نے میر کا حال بتا کر گھوڑے اور "تکلیف نوکری" سے معافی دلا دی۔ مطلب یہ کہ برائے نام سپاہی تھے کام کچھ نہ تھا۔ اسی عرصہ میں صفدر جنگ نے جاوید خاں کو قتل کرا دیا اور میر پھر بیکار ہو گئے۔ تب مہا نراین، دیوان صفدر جنگ، نے ان کی دستگیری کی اور چند مہینے فراغت سے گذرے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ راجہ جگل کشور اور راجہ ناگر مل سے وابستہ رہے۔ راجہ ناگر مل کی رفاقت میں انہوں نے بہت سے مقامات اور معرکے دیکھے۔ ان مربیوں کے حالات بگڑنے کے بعد وہ کچھ عرصہ گوشہ نشین رہے۔ جب نادر شاہ اور احمد شاہ کی خونریزیوں نے دہلی کو اجاڑ دیا اور لکھنؤ آباد ہوا تو نواب آصف الدولہ نے انہیں لکھنؤ بلا لیا۔ میر لکھنؤ کو برا بھلا کہنے کے باوجود وہیں رہے اور وہیں تقریباً 90 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ میر نے بھر پور اور ہنگامہ خیز زندگی گزاری۔ سکون و راحت کا کوئی طویل عرصہ ان کو نصیب نہیں ہوا۔
میر نے اردو کے چھ دیوان مرتب کئے جن میں غزلوں کے علاوہ قصائد، مثنویاں، رباعیات اور واسوخت وغیرہ شامل ہیں۔ نثر میں ان کی تین کتابیں نکات الشعراء، ذکر میر اور فیض میر ہیں۔ موخرالذکر انہوں نے اپنے بیٹے کے لئے لکھی تھی۔ ان کا ایک فارسی دیوان بھی ملتا ہے۔
میر کی نازک مزاجی اور بد دماغی کے قصے محمد حسین آزاد نے حسب عادت چٹخارے لے لے کر بیان کئے ہیں جو بیشتر قدرت اللہ قاسم کی کتاب مجموعہ نغز اور ناصر لکھنؤی کے خوش معرکۂ زیبا سے ماخوذ ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ابتدائی عمر کے صدمات اور عوارض کا کچھ نہ کچھ اثر میر پر بعد میں بھی باقی رہا۔ جس کا ثبوت ان کی شاعری ا ور تذکرے دونوں میں ملتا ہے۔
میر نے سبھی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن ان کا خاص میدان غزل ہے، ان کی غم انگیز لے اور ان کا شعور فن ان کی غزل کی اساس ہے۔ ان کی شاعری ذاتی اندوہ کی حدوں سے گذر کر ہمہ گیر انسانی دکھ درد کی داستاں بن گئی ہے۔ ان کا غم سطحی اضطراب اور بے صبری کا مظہر نہیں بلکہ مسلسل تجربات اور ان کے روحانی رد عمل کا نتیجہ ہے، جسے وہ درد مندی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور جو غم سے بلند تر روحانی تجربہ کا نام ہے اور اپنی ارفع صورت میں ایک مثبت فلسفہ حیات بن جاتا ہے۔ میر کا غم جو بھی تھا، ان کے لئے فنی تخلیق کا ذریعہ اور اعلی بصیرتوں کا وسیلہ بن گیا۔ غم و الم کے باوجود میر کے یہاں زندگی کا ایک ولولہ پایا جاتا ہے۔ ان کے غم میں بھی ایک طرح کی گہما گہمی ہے۔ احساس غم کی اس تطہیر نے میر کی شاعری کو نئی رفعت عطا کی ہے۔
فنی سطح پر ان کے شعر میں الفاظ اپنے موضوع اور مضمون سے پوری طرح ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں لطیف جذبات کا رسیلا پن ہے۔ ان کے شعروں میں پیکر تراشی اور خیال انگیزی بھی کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔ انہوں نے خوبصورت فارسی تراکیب اردو میں داخل کیں۔ میر کو شعر میں ایک خاص صوتی فضا پیدا کرنے کا خاص ملکہ ہے۔ ان کے شعروں میں ہر لفظ موتی کی طرح جڑا ہوتا ہے۔ میر اپنے قاری کو ایک طلسم میں جکڑ لیتے ہیں اور ان کے سحر سے نکل پانا مشکل ہوتا ہے
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets