aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
پیش نظر جوش ملیح آبادی کے رباعیات کا مجموعہ "نجوم و جواہر" ہے۔ جوش کے کلام کی ایک خوبی نئی نئی تشبیہات و استعارات کا برجستہ اور بے ساختہ استعمال ہے۔ قاری ان کے طلسم میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ جوش نے اپنی رباعیوں میں زندگی کے تمام مسائل کو موضوع بنایا ہے۔ موضوعات کی ہمہ گیری ہی جوش کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ ان کے یہاں کہیں خیام کے خمریات کا نشہ ہے تو کہیں عشق کی کیفیات، کبھی فلسفہ علم و عقل، کہیں فلسفہ خودی کا ردعمل، خوشی کی صورت تو کہیں مذہب پر کڑا طنز ہے۔ ان کی رباعیات میں عشق حقیقی سے عشق مجازی کا بیان زیادہ ہے۔ جوش کے رباعیات کی ایک خوبی عمدہ منظر نگاری ہے۔ جو ش کا انقلابی لب ولہجہ رباعیات میں بھی نمایاں ہے۔
شبیر حسن خاں نام، پہلے شبیرؔ تخلص کرتے تھے پھر جوشؔ اختیار کیا۔ 1898 ء میں ملیح آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد بشیر احمد خاں بشیرؔ، دادا محمد احمد خاں احمدؔ اور پردادا فقیر محمد خاں گویاؔ معروف شاعر تھے۔ اس طرح شاعری انہیں وراثت میں ملی تھی۔ ان کا گھرانا جاگیرداروں کا گھرانا تھا۔ ہر طرح کا عیش و آرام میسر تھا لیکن اعلیٰ تعلیم نہ پاسکے۔ آخرکار مطالعے کا شوق ہوا اور زبان پر عبور حاصل کرلیا۔ شعر کہنے لگے تو عزیزؔ لکھنوی سے اصلاح لی۔ ملازمت کی تلاش ہوئی تو طرح طرح کی دشوایوں کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر کار دارالترجمہ عثمانیہ میں ملازمت مل گئی۔ کچھ مدت وہاں گزارنے کے بعد دہلی آئے اور رسالہ ’’کلیم‘‘ جاری کیا۔ آل انڈیا ریڈیو سے بھی تعلق رہا۔ سرکاری رسالہ ’آج کل‘ کے مدیر مقرر ہوئے۔ اسی رسالہ سے وابستہ تھے کہ پاکستان چلے گئے۔ وہاں لغت سازی میں مصروف رہے۔ وہیں 1982ء میں وفات پائی۔
جوشؔ نے کچھ غزلیں بھی کہیں لیکن ان کی شہرت کا دارومدار نظموں پر ہے۔ انہوں نے تحریک آزادی کی حمایت میں نظمیں کہیں تو انہیں ملک گیر شہرت حاصل ہوگئی اور انہیں شاعرانقلاب کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔ ان کی سیاسی نظموں پر طرح طرح کے اعتراضات کیے گئے۔ خاص طور پر یہ بات کہی گئی کہ وہ سیاسی شعور سے محروم اور انقلاب کے مفہوم سے ناآشنا ہیں۔ ان نظموں میں خطابت کے جوش کو سوا اور کچھ نہیں لیکن اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ ملک میں سیاسی بیداری پیدا کرنے اور تحریک آزادی کو فروغ دینے میں جوشؔ کی نظموں کا بڑا حصہ ہے۔
شاعر انقلاب کے علاوہ جوشؔ کی ایک حیثیت شاعر فطرت کی ہے۔ مناظر فطرت میں جوشؔ کے لئے بے حد کش ہے۔ وہ ان کی ایسی جیتی جاگتی تصویریں کھینچتے ہیں کہ میر انیس کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی جوشؔ کی انقلابی شاعری کے تو قائل نہیں لیکن مناظر فطرت کی تصویر کشی میں جوشؔ نے جس مہارت کا ثبوت دیا ہے اس کے قائل ہیں۔ فرماتے ہیں ’’جوشؔ نے مناظر فطرت پر جس کثرت سے نظمیں لکھی ہیں اس کی مثال پوری اردو شاعری میں نہیں ملے گی‘‘۔ صبح و شام، برسات کی بہار، گھٹا، بدلی کا چاند، ساون کا مہینہ، گنگا کا گھاٹ، یہ تمام مناظر جوشؔ کی نظموں میں رقصاں وجولاں ہیں۔ بدلی کا چاند، البیلی صبح، تاجدار صبح، آبشار نغمہ، برسات کی چاندنی وہ زندۂ جاوید نظمیں ہیں جن کے سبب جوشؔ فطرت ہی نہیں بلکہ پیغمبر فطرت کہلائے۔
جوشؔ کی تیسری حیثیت شاعر شباب کی ہے۔ وہ عشق مجازی کے شاعر ہیں اور وصل محبوب کے طلبگار۔ ہجر کے مصائب برداشت کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ انہیں ہر اچھی صورت پسند ہے اور وہ بھی اس وقت تک جب تک وصال میسر نہ ہو۔ ’’مہترانی‘‘ ’’مالن‘‘ اور ’’جامن والیاں‘‘ جوشؔ کی مزیدار نظمیں ہیں۔ اس قبیل کی دوسری نظموں کے نام ہیں۔ ’’اٹھتی جوانی‘‘، ’’جوانی کے دن‘‘، ’’جوانی کی رات‘‘ ’’فتنۂ خانقاہ‘‘، پہلی مفارقت‘‘ ’’جوانی کی آمد آمد‘‘، ’’جوانی کا تقاضا‘‘۔
جوشؔ کی شاعری میں سب سے زیادہ قابل توجہ چیز ہے۔ ایک دلکش اور جاندار زبان! جوشؔ کو زبان پر مکمل عبور حاصل ہے۔ انہیں بجا طور پر لفظوں کا بادشاہ کہا گیا ہے۔ مترنم الفاظ کے انتخاب کا انہیں بہت سلیقہ ہے۔ ان کی تشبیہوں اور استعاروں میں بے حد لطافت پائی جاتی ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets