aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
"میر جدید" كہلانے والے عہد ساز شاعرناصر كاظمی كی شاعری لطیف انسانی جذبات و احساسات كی بہترین ترجمان ہے۔ناصر نے اپنے منفرد اسلوب اور طرز احساس كی تازگی كے باعث سب سے زیادہ مقبولیت حاصل كی۔"پہلی بارش "ناصر كاظمی كے غزلوں كا مجموعہ ہے۔جو ان كے بعد ازوفات منظر عام پر آیا۔جس میں شامل كلام ناصر كے ادبی مقام كے تعین میں اہمیت كا حامل ہے۔ناصر كاظمی كا شمار جدید غزل كے معماروں میں كیا جاتا ہے۔جدید غزل كواپنے منفرد لب و لہجہ سے ادبی معراج عطا كرنے والے اس شاعر نے پیروی میر میں سہل ممتنع میں اپنے درد و كرب ،اطراف كے سانحات كو پیش كیا ہے۔ چھوٹی بحروں میں ان كے اشعار اپنی نغمگی ،رومان اورلطافت كے ساتھ دھیرے دھیرے دل كی دنیا میں احساسات كی لہروں كے ان گنت دائرے بناتے ہیں۔ سادہ اسلوب ،قادراالكلامی ،ندرت خیال،سچے جذبا ت و احساسات،ان كے كلام كی وہ خصوصیات ہیں جس نے اردو غزل كےدامن كو وسیع كیا ہے۔ "پہلی بارش" كی ایك خصوصیت یہ بھی ہے كہ اس كی تمام غزلیں ایك ہی زمین میں ہیں۔ ان كی غزلیں ذاتی كرب اور جدید انسان كے مسائل كی عكاسی كرتی ہیں۔جس میں دكھ كی ہلكی سی سلگتی ہوئی آنچ ہے۔ناصر نے استعارے لفظیات كے پیمانے تو عشقیہ ركھے لیكن اس كے باطن میں محض عشق نہیں بلكہ ہجرت،جدید دور كے مسائل ، انسان كے باطن كا كرب اور دوسری بہت سی چیزیں پنہاں ہیں۔ان كی لفظیات اور حسیات كے پیمانے رومانوی ہونے كے باوجود ان كا كلام عصر حاضر كے مسائل سے جڑا رہا۔یہی وجہ ہے كہ وہ اپنے رومانوی لب و لہجہ كی بدولت نوجوانوں میں مقبول ہیں اور اپنے تہہ دارتعقل كے باعث غزل كے سنجیدہ قارئین كی توجہ حاصل كرنے میں قادر ہیں۔ناصر نے برصغیر كی آزادی كے ہنگاموں كو دیكھا ہجرت كا درد سہا،نئی سرزمین میں جہاں ان كے دل میں ہجرت كا كرب سما گیا تھا،وہیں تقسیم ہند كے خون ریز واقعات نے ان كی روح كوجھنجوڑ دیا تھا۔ان كی ہر غزل ان كے دكھی دل كی داستاں بیان كررہی ہے۔ان كے كلام میں احساسات كی تاثیر،لفظوں كا آہنگ اورموزوں نشست ، منفرد اور دلوں كوچھولینے والا اسلوب بیاں ہی ہے كہ آج بھی ناصر كاظی اہل اردو میں مقبول عام ہیں۔ان كے كئی اشعار زبان زد خاص و عام ہیں۔
اردو غزل کا مانوس اجنبی
’’ناصر کاظمی کے کلام میں جہاں ان کے دکھوں کی داستان، زندگی کی یادیں، نئی اور پرانی بستیوں کی رونقیں، ایک بستی سے بچھڑنے کا غم اور دوسری بستی بسانے کی حسرتِ تعمیر ملتی ہے، وہیں وہ اپنے عہد اور اس میں زندگی بسر کرنے کے تقاضوں سے بھی غافل نہیں رہتے۔ ان کے کلام میں ان کا عہد بولتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔‘‘ (حامدی کاشمیری)
’’غزل کا احوال دلّی کا سا ہے۔ یہ بار بار اجڑی ہے اور بار بار بسی ہے کئی بار غزل اجڑی لیکن کئی بار زندہ ہوئی اور اس کا امتیاز بھی یہی ہے کہ اس میں اچھی شاعری ہوئی ہے۔‘‘ (ناصر کاظمی)
ناصر کاظمی کا یہ قول ان کی شاعری پر پورا اترتا ہے۔ اک ایسے دور میں جب غزل معتوب تھی، ناصر کاظمی ایسے منفرد غزل گو کے طور پر ابھرے، جنھوں نے نہ صرف اجڑی ہوئی غزل کو نئی زندگی دی، بلکہ فطرت اور کائنات کے حسن سے خود بھی حیران ہوے، اور اپنے تخلیقی جوہر سے دوسروں کو بھی حیران کیا۔ احساس تحیر ہی ناصر کی شاعری کی وہ خوشبو تھی، جو فضاؤں میں پھیل کر اس میں سانس لینے والوں کے دلوں میں گھر کر لیتی ہے۔ بقول جیلانی کامران ناصر نے اپنی غزل کے ذریعہ اپنے زمانے میں اور اپنی ہمعصر نسلوں کے لئے شعری الٰہیات کا جو منظر مرتب کیا ہے، وہ ہمارے شعری ادب میں اک قیمتی باب کا اضافہ کرتا ہے۔ ناصر کاظمی ملک کی تقسیم کے بعد ایسے شاعر کے طور پر سامنے آتے ہیں جو غزل کے تخلیقی کردار کو تمام و کمال بحال کرنے میں کامیاب ہوے۔ نئی نسل کے شعراء ناصر کاظمی کے اظہار کو اپنے دل و جاں سے قریب محسوس کرتے ہیں کیونکہ نئی شاعری اجتماعیت سے کنارہ کش ہو کر نجی زندگی سے گہرے طور پر وابستہ ہو گئی ہے، اس میلان کے نتیجہ میں ناصر کاظمی اپنے پڑھنے والوں کو، انسانیت اور اجتماعیت کی تبلیغ کرنے والے شعراء کے مقابلہ میں، خود سے زیادہ قریب محسوس ہوتے ہیں۔
ناصر کاظمی 8 دسمبر 1925 کو انبالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سیّد ناصر رضا کاظمی تھا۔ ان کے والد سیّد محمد سلطان کاظمی فوج میں صوبیدار میجر تھے اور والدہ اک پڑھی لکھی خاتون انبالہ کے مشن گرلز اسکول میں ٹیچر تھیں۔ ناصر نے پانچویں جماعت تک اسی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ بعد میں ماں کی نگرانی میں گلستاں، بوستاں، شاہنامۂ فردوسی، قصہ چہار درویش، فسانۂ آزاد، الف لیلٰیٰ، صرف و نحو اور اردو شاعری کی کتابیں پڑھیں۔ بچپن میں پڑھے گئے داستانوی ادب کا اثر ان کی شاعری میں بھی ملتا ہے۔ ناصر نے چھٹی جماعت نیشنل اسکول پشاور سے، اور دسویں کا امتحان مسلم ہائی اسکول انبالہ سے پاس کیا۔ انھوں نے بی اے کے لئے لاہور گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا تھا، لیکن تقسیم کے ہنگاموں میں ان کو تعلیم چھوڑنی پڑی۔ وہ نہایت کسمپرسی کی حالت میں پاکستان پہنچے تھے۔ ناصر نے کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔
شاعری میں ان کے ابتدائی ماڈل میر تقی میر اور اختر شیرانی تھے۔ ان کی شاعری میں عشق کی بڑی کار فرمائی رہی۔ مزاج لڑکپن سے عاشقانہ تھا۔ چنانچہ وہ پوری طرح جوان ہونے سے پہلے ہی گھائل ہو چکے تھے۔ ان کا بیان ہے "عشق، شاعری اور فن یوں تو بچپن سے ہی میرے خون میں ہے، لیکن اس ذوق کی پرورش میں ایک دو معاشقوں کا بڑا ہاتھ رہا" پہلا عشق انھوں نے تیرہ سال کی عمر میں حمیرہ نام کی اک لڑکی سے کیا ۔اور اس کے عشق میں دیوانے ہو گئے۔ ان کے کالج کے ساتھی اور دوست جیلانی کامران کا بیان ہے، "ان کا پہلا عشق حمیرہ نام کی اک لڑکی سے ہوا۔ ایک رات تو وہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے کاریڈور میں دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا اور دیواروں سے لپٹ رہا تھا اور حمیرہ حمیرہ کہہ رہا تھا۔ یہ 1944 کا واقعہ ہے" لیکن اس کے بعد انھوں نے جس لڑکی سے عشق کیا اس کا سراغ کسی کو نہیں لگنے دیا۔ بس وہ اسے سلمیٰ کے فرضی نام سے یاد کرتے تھے۔ یہ عشق درد بن کر ان کے وجود میں گُھل گیا اور زندگی بھر ان کو گھُلاتا رہا۔ 1952 میں انھوں نے بچپن کی اپنی اک اور محبوبہ شفیقہ بیگم سے شادی کر لی جو ان کی خالہ زاد تھیں۔ ناصر کا پچپن لاڈ پیار میں گزرا تھا اور کوئی محرومی ان کو چھو بھی نہیں گئی تھی۔ کبوتر بازی، گھوڑ سواری، سیر سپاٹا، ان کے مشاغل تھے لیکن جب پاکستان پہنچ کر ان کی زندگی تلپٹ ہو گئی تو انھوں نے اک مصنوعی اور خیالی زندگی میں پناہ ڈھونڈی۔ وہ دوستوں میں بیٹھ کر لمبی لمبی چھوڑتے اور دوست ان سے لطف اندوز ہوتے۔ مثلا شکار کے دوران شیر سے ان کا دو بار سامنا ہوا لیکن دو طرفہ مروّتیں آڑے آ گئیں، ایک بار تو شیر قیلولہ کر رہا تھا اس لئے انھوں نے اسے ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا، پھر دوسری بار جب شیر جھاڑیوں سے نکل کر ان کے سامنے آیا تو ان کی بندوق میں اس وقت کارتوس نہیں لگا تھا۔ شیر نظریں نیچی کر کے جھاڑیوں میں واپس چلا گیا۔ ایک بار البتہ انھوں نے شیر مار ہی لیا۔ اس کی چربی اپنے کبوتروں کو کھلائی تو بلیاں ان کبوتروں سے ڈرنے لگیں۔ وہ ایسی جگہ اپنی ہوائی جہاز کے ذریعہ آمد بیان کرتے جہاں ہوائی اڈہ ہوتا ہی نہیں تھا۔ تخیل کو حقیقت کے طور پر جینے کی ناصر کی ان کوششوں پر ان کے دوست زیر لب مسکراتے بھی تھے اور ان کے حال پر افسوس بھی کرتے تھے۔ انبالہ میں اک بڑی کوٹھی میں رہنے والے ناصر کو لاہور میں پرانی انارکلی کے اک خستہ حال مکان میں دس برس رہنا پڑا۔ ہجرت کے بعد وہ بیروزگار اور بے یار و مددگار تھے۔ ان کے والدین تقسیم کی ہولناکیوں اور اس کے بعد کے مصائب زیادہ دن نہیں جھیل سکے اور چل بسے۔ ناصر نے محکمۂ بہبود اور محکمۂ زراعت میں چھوٹی موٹی نوکریاں کیں۔ پھر ان کے اک ہمدرد نے ضابطوں میں رعایت کرا کے ان کو ریڈیو پاکستاں میں ملازمت دلا دی اور وہ باقی زندگی اسی سے وابستہ رہے۔ ناصر نے جتنی ملازمتیں کیں، بے دلی سے کیں۔ ڈسپلن اور ناصر کاظمی دو متضاد چیزیں تھیں۔ محنت کرنا انھوں نے سیکھا ہی نہیں تھا، اسی لئے رغبت اور شوق کے باوجود وہ میوزک اور مصوری نہیں سیکھ سکے۔ وہ اک آزاد پنچھی کی طرح فطرت کے حسن میں ڈوب جانے اور اپنے داخل و خارج کی کیفیات کے نغمے سنانے کے قائل تھے۔ وہ شاعری کو اپنا مذہب کہتے تھے۔ شادی کی پہلی رات جب انھوں نے اپنی بیوی کو یہ بتایا کہ ان کی اک اور بیوی بھی ہے تو دلہن کے ہوش اڑ گئے پھر انھوں نے ان کو اپنی کتاب "برگ نے" پیش کی اور کہا کہ یہ ہے ان کی دوسری بیوی۔ یہی ان کی طرف سے دلہن کی منہ دکھائی تھی۔ اپنی نجی زندگی میں ناصر حد درجہ لا ابالی اور خود اپنی جان کے دشمن تھے۔ 26 سال کی عمر سے ہی ان کو دل کی بیماری تھی لیکن کبھی پرہیز نہیں کیا۔ انتہائی تیز چونے کے پان کھاتے۔ ایک کے بعد ایک سگرٹ سلگاتے، ہوٹلوں پر جا کر نان، مرغ، اور کباب کھاتے اور دن میں درجنوں بار چاے پیتے۔ شب گشتی ان کا معمول تھی۔ رات رات بھر آوارہ گردی کرتے۔ ان بے اعتدالیوں کی وجہ سے ان کو 1971ء میں معدہ کا کینسر ہو گیا اور 2 مارچ 1972 کو ان کا انتقال ہو گیا۔ "برگ نے" کے بعد ان کے دو مجموعے "دیوان" اور "پہلی بارش" شائع ہوے۔ "خواب نشاط" ان کی نظموں کا مجموعہ ہے انھوں نے اک منظوم ڈرامہ " سُر کی چھایا" بھی لکھا۔ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اک اچھے نثر نگار بھی تھے۔ ریڈیو کی ملازمت کے دوران انھوں نے کلاسیکی اردو شاعروں کے خاکے لکھے جو بہت مقبول ہوے۔
ناصر کاظمی کی شخصیت اور شاعری دونوں میں اک عجیب طرح کی سحر انگیزی پائی جاتی ہے۔ اپنی روائیتی لفظیات کے باوجود انھوں نے غزل کو اپنی طرز ادا کی برجستگی اور ندرت سے سنورا۔ انھوں نے نظریاتی میلانات سے بلند ہو کر شاعری کی اس لئے ان کا میدان شعر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ وسیع اور متنوع ہے جس میں بہرحال مرکزی حیثیت عشق کی ہے۔ ان کی تمام شاعری اک حیرت کدہ ہے جس میں داخل ہونے والا دیر تک اس کے سحر میں کھویا رہتا ہے۔ انھوں نے شاعری اور نثری اظہار کے لئے نہایت سادہ اورعام فہم زبان استعمال کی۔ ان کی گفتگو کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ان کی نثر بھی خود ان کی طرح سادہ مگر گہری ہے۔ انھوں نے حرف زیر لبی کے دھیمے، داخلی اور سرگوشیانہ لہجہ میں اپنا وجود منوایا اور اردو غزل کو کلیشوں سے آزاد کرتے ہوئے اس کے پوشیدہ امکانات سے استفادہ کیا اور اسے تخلیقی کمال کی نئی دہلیز پر لا کھڑا کیا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets