aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
شیخ فرید الدین عطار کی فارسی زبان میں لکھی ہوئی مثنوی منطق الطیر جو چار ہزار چھ سو اشعار پر مشتمل ہے۔ یہ مثنوی اپنے حصے ہفت وادی کی وجہ سے سماوی سفر ناموں کی اہم کتب میں شمار ہوتی ہے۔ ہفت وادی،میں ایک مشکل سفر کا بیان جو سات وادیوں سے گزرنے کا بے حد مشکل عمل ہے۔ یہ سات وادیاں، طلب و جستجو، عشق، معرفت، استغنا، توحید، حیرت اور فنا کے نام سے مسموم ہیں۔ تیش پرندے جب ہدہد کی رہنمائی میں یہ ساتوں وادیاں عبور کر لیتے ہیں تو انہیں وادی فنا میں سیمرغ کی بارگاہ دکھائی دیتی ہے لیکن جب وہ سیمرغ کو دیکھتے ہیں تو انہیں اس میں اور اپنے میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔ گویا وہ تیس پرندے علاماتی طور پر اپنی تلاش میں چلے تھے اور اپنی یافت پر ان کا سفر ختم ہوا۔زیر نظر کتاب شیخ وجیہ الدین وجدی کی مثنوی "پنچھی نامہ " درحقیقت شیخ فرید الدین عطار کی تصنیف"منطق الطیر" کا دکنی ترجمہ ہے۔ ڈاکٹر زور قادری یہ لکھتے ہیں کہ وجدی نے 1146ء میں مثنوی "پنچھی نامہ" قلمبند کی۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free